Kya Mard Ka Apni Sauteli Betiyon Se Bhi Parda Hoga ?

کیا مرد کا اپنی سوتیلی بیٹیوں سے بھی پردہ ہوگا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13135

تاریخ اجراء:09جمادی الاولیٰ1445ھ/24نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ مطلقہ عورت جس کی پہلے شوہر سے بیٹیاں ہوں،  وہ عورت اگر دوسری شادی کرے اور  دوسرے شوہر سے ازدواجی  تعلقات بھی قائم ہوجائیں، تو کیا عورت کے دوسرے شوہر کا اپنی سوتیلی بیٹیوں سے پردہ ہوگا یا نہیں؟ اگر پردہ نہیں ہوگا تو کیا اُس عورت کے انتقال کے بعد اُن لڑکیوں سے پردہ ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس  عورت کے ساتھ مرد ازدواجی تعلقات قائم  کرلے تو اس مدخولہ عورت کی لڑکی اُس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے، خواہ  وہ مدخولہ عورت اس مرد کے نکاح میں موجود رہے یا نہ رہے، بہر صورت اس مدخولہ عورت کی لڑکی  سے اس مرد کا نکاح کرنا حرام ہوتاہے۔  لہذا پوچھی  گئی صورت میں دوسرے شوہر کا اپنی سوتیلی بیٹیوں سے پردہ نہیں کہ وہ لڑکیاں حرمتِ مصاہرت کے سبب اس مرد کی ابدی محرمات ہیں۔

   سوتیلی بیٹی کے محرم ہونے سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلْتُمۡ بِہِن ترجمہ کنزالایمان : اور  ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بی بیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو۔ (القرآن الکریم،پارہ04،سورۃ النساء،آیت:23)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ رازی  میں ہے: اعلم أنه تعالى نص على تحريم أربعة عشر صنفا من النسوان ۔۔۔۔ بنات النساء بشرط أن يكون قد دخل بالنساء ۔ یعنی اللہ عزوجل نے چودہ عورتوں کے ساتھ نکاح کو  واضح طور پر حرام فرمایا۔۔۔۔ (انہیں محرمات میں سے ) عورت کی بیٹیاں بھی ہیں بشرطیکہ اُس عورت کے ساتھ مرد نے دخول کرلیا ہو۔ (التفسير الكبير، ج 10، ص 22، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ملتقطاً)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ نور  العرفان میں ہے:”اپنی بیوی کی بیٹی جو دوسرے خاوند سے ہو، وہ حرام ہے اگرچہ ہماری پرورش میں نہ ہو۔ مگر یہ سوتیلی بیٹی صرف ہمارے لیے حرام ہے اور ہماری اولاد کے لیے حلال اور ہمارے لیے بھی جب حرام ہے جبکہ بیوی سے صحبت کرلی(ہو)۔(تفسیرِ نور العرفان، ص 128، مطبوعہ  پیر بھائی کمپنی اردو بازار، لاہور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اسی آیت کے تحت  ارشادفرماتے ہیں:”اس آیہ کریمہ میں زن مدخولہ کی بیٹی حرام فرمائی اور وصف "الّٰتی فی حجور کم" یعنی اس کی گود میں پلنا بالاجماع شر ط حرمت نہیں۔۔۔ مناط حرمت صرف وطی ہے اور حاصل آیت کریمہ یہ کہ جس عورت سے تم نے کسی طرح صحبت کی اگرچہ بلانکاح اگرچہ بروجہ حرام، اس کی بیٹی تم پر حرام ہوگئی۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 355-354، رضافانڈیشن لاہور، ملتقطاً)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”بنات الزوجۃ و بنات اولادھا و ان سفلن بشرط الدخول بالام کذا فی الحاوی القدسی سواء کانت الابنۃ فی حجرہ او لم تکن کذا فی شرح الجامع الصغیر لقاضیخان“ یعنی مرد اگر بیوی سے صحبت کرچکا ہے تو اس پر مدخولہ عورت کی لڑکیاں اور اس کی اولاد کی لڑکیاں ، یعنی پوتیاں اور نواسیاں حرام ہیں، جیسا کہ حاوی قدسی میں مذکور ہے۔ خواہ وہ لڑکی مرد کی پرورش میں ہو یا نہ ہو، جیسا کہ امام قاضی خان کی شرح جامع صغیر میں مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح،  ج 01، ص 274،  مطبوعہ بیروت)

   صدر الشریعہ  مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”کیا زوجہ کی لڑکی سے اس کی موجودگی میں نکاح ہوسکتا ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جس عورت سے نکاح کیا اور دخول بھی کرچکا، اس کی لڑکی حرام ہے ۔ نہ عورت کی موجودگی میں اس سے نکاح کرسکتا ہے اور نہ اس کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد، اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا"وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلْتُمۡ بِہِن"۔“(فتاوٰی امجدیہ، ج 02، ص 89، مکتبہ رضویہ کراچی)

   محارم سے پردہ نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”پردہ صرف ان سے نادرست ہے جو بسبب نسب کے عورت پر ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہوں اور کبھی کسی حالت میں ان سے نکاح ناممکن ہو جیسے باپ، دادا،نانا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بیٹا، پوتا، نواسا۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 235، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم