Kya Saas Mehram Hai? Damad Ke Samne Saas Ki Namaz Ho Jayegi?

کیا ساس محرم ہے؟ داماد کے سامنے ساس کی نماز ہوجائے گی؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12908

تاریخ اجراء:26ذوالحجۃ الحرام1444ھ/15جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ بارےمیں کہ کیا میری ساس میرے لیے محرم ہے؟ کیا میرے سامنے میری ساس کی نماز ہوسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ساس محارم عورتوں میں سے ہے کہ وہ بیوی کی ماں ہے۔  اس کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے، لہذا داماد کا ساس سے پردہ نہیں،  داماد کی موجودگی میں ساس نماز پڑھ سکتی ہے۔ البتہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ساس جوان ہو تو کچھ چیزوں میں احتیاط کی حاجت ہوگی مثلاً ساتھ سفر کرنا، خلوت اختیار کرنا وغیر  ذالک  ۔

   داماد کے لیے ساس محرم ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اُمَّهٰتُ  نِسَآىٕكُمْ“ترجمہ کنزالایمان:(حرام ہوئیں تم پر ) عورتوں کی مائیں۔(پارہ 04،سورۃ النساء،آیت نمبر 23)

   فتاوٰی ہندیہ میں ہے:(القسم الثاني المحرمات بالصهرية) وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علونیعنی محرمات کی دوسری قسم سسرالی رشتے سے محارم عورتیں ہیں اور یہ چار گروہ ہیں۔ ان میں سے پہلی بیویوں کی باپ اور ماں کی جانب سے مائیں اور ان کی دادیاں ہیں اگر چہ یہ اوپر تک ہوں۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح، ج 01، ص 274، دار الفکر، بیروت)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”ساس پر داماد مطلقا حرام ہے اگرچہ اس کی بیٹی کی رخصت نہ ہوئی ہو اور قبل رخصت مرگئی ہو، قال اللہ تعالٰی: وامھات نسائکم (اور تمھاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام ہیں)۔(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 439، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ” ساس کی حرمت اس وجہ سے نہیں کہ وہ خسر کی زوجہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ زوجہ کی ماں ہے۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 312، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   جوان ساس سے پردہ کرنا مناسب ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”علاقہ صہر ہو جیسے خسر، ساس، داماد ، بہو، ان سب سے نہ پردہ واجب نہ نادرست ہے،  کرنا نہ کرنا دونوں جائز اور بحالت جوانی یا احتمال فتنہ پردہ کرنا ہی مناسب۔(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 235، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ”علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔ یہی حکم خسر اور بہو کا (ہے)۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ: ” ساس اپنے داماد سے اوربہو اپنے خسر سے پردہ کرے یا نہیں؟“ فتاوٰی فیض الرسول میں ہے: ”جوان ساس کو اپنے داماد سے پردہ مناسب ہے یہی حکم خسر اور بہو کا بھی ہے ۔(فتاوٰی فیض رسول،  ج 02، صفحہ 559-558، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم