Muhrim Ka Munh Sote Hue Chadar Se Chhup Gaya To Kya Hukum Hai ?

مُحْرِمْ  کا منہ سوتے ہوئے چادر سے چھپ گیا، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fam-434

تاریخ اجراء:07 ذی الحجۃ الحرام1445ھ/14جون 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن جو کہ حجِ قران  کررہی ہیں،سوتے ہوئے بے خیالی میں اُن کے منہ پر چادر آگئی اور  وہ دو گھنٹے تک سوئی رہیں،اب کیا ایسی صورت میں اُن پر دم لازم ہوگا یا صدقہ ؟اگر صدقہ لازم ہوگا، تو  یہ صدقہ کہاں  اور  کس جگہ کے حساب سے دینا ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  چونکہ  اُن  اسلامی بہن  کا  پورا یا کم ازکم  چوتھائی چہرہ  لگاتار چار پہر یعنی بارہ گھنٹے تک   نہیں چھپا  ،بلکہ  دو گھنٹے یا اس سے بھی کم ہی چھپا ہوگا،تو ایسی صورت میں اُن پر کفارے میں  دو صدقہ فطر  لازم ہوں گے ۔سونے کی حالت میں بھی  چہرہ چھپنے سے  اگرچہ کفارے کے لزوم پر کوئی فرق نہیں آئے گا،مگر اس صورت میں چونکہ  مُحرمہ کا اپنا قصد و ارادہ نہیں پایا گیا،لہذااس صورت میں جنایت کے ارتکاب کے سبب گناہ نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ  یہاں  دو صدقہ فطر لازم ہونے کی  وجہ یہ ہے کہ اِس   جنایت کا تعلق احرام کے ممنوعات سے  ہے ،اور اصول یہ ہے کہ جو  کام  احرام باندھنے کی وجہ سے ممنوع ہو اوراحرام کی حالت میں  اُس کے ارتکاب سے  حج تمتع یا  حج  افراد کرنے والے پر  ایک دم یا ایک صدقہ لازم آتا ہو،تو وہاں قارن پر دو دم یا دو  صدقے لازم ہوتے ہیں، کیونکہ قارن نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہوتا ہے،لہذا  دو احراموں پر جنایت  کے سبب کفارے بھی دو لازم ہوں گے۔ نیز صدقہ اپنے شہر کے شرعی فقیر (یعنی جسے زکوٰۃ دینا ، جائز ہے ، ایسے شخص) کو بھی دے سکتے ہیں ، لیکن حرم شریف میں موجود شرعی فقیر کو دینا افضل ہے، اور صدقہ جہاں بھی دے ، بہر حال قیمت اس مقام کے حساب سے دینی ہو گی، جہاں صدقہ ادا کرنے والاادائیگی کے وقت خود موجود ہو ۔

   حالت احرام میں چہرے کے چھپ جانے سے متعلقلباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(ولو غطی جمیع رأسہ أو وجھہ بمخیط  أو غیرہ  یوما أو لیلۃ فعلیہ دم وفی الأقل من یوم)وکذا من لیلۃ(صدقۃ والربع منھما کالکل)‘‘ترجمہ:اگر محرم نے اپنا  پورا سر یا چہرہ سلے ہوئے کپڑے یا اس کے علاوہ  کسی چیز  سے ایک دن یا ایک رات چھپایا تو اس پر دم لازم ہے اور ایک دن یا ایک رات سے کم چھپایا، تو صدقہ لازم ہے اور اس حکم میں    چوتھائی سر اور چہرہ پورے سر اور چہرے کی طرح ہے۔(لباب المناسک مع شرحہ، باب الجنایات،صفحہ435،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   بہار شریعت میں ہے:”مرد یا عورت نے مونھ کی ٹکلی ساری یا چہارم چھپائی،یا مرد نے پورا یا چہارم سر چھپایا، تو چار پہر یا زیادہ لگاتار چھپانے میں دَم ہے اور کم میں صدقہ اور چہارم سے کم کو چار پہر تک چھپایا تو صدقہ ہے اور چار پہر سے کم میں کفارہ نہیں ،مگر گناہ ہے۔“(بھار شریعت ، جلد1 ، حصہ6 ، صفحہ1169 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب سوتے میں ہویا جاگتےمیں بہر حال کفارہ  لازم ہوتا ہے،جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(لا فرق فی وجوب الجزاء فیما اذا جنی۔۔۔نائما أو منتبھا عند مباشرتہ)‘‘ملتقطاً۔ترجمہ: جزاء کے لزوم میں  کوئی فرق نہیں ہے ،اس صورت میں جب کوئی  سونے کی حالت میں جنایت کرے یا  وہ جنایت کرتے  وقت چوکنا ہو (بہرحال کفارہ لازم ہوگا(لباب المناسک مع شرحہ، باب الجنایات،صفحہ423،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   البتہ بحالت نیند قصد نہ ہونے کی وجہ سے جنایت  کے وقوع پر گناہ نہیں ہوگا،چنانچہ لباب المناسک میں ہے:’’المحرم اذا جنی بغیر عمد أو بعذر فعلیہ الجزاء دون الاثم‘‘ترجمہ:جب محرم بغیر قصد  کے یا  کسی عذر کی وجہ سے جنایت کرے، تو اس پر کفارہ لازم ہوگا،(مگر)گناہ نہیں ہوگا۔(لباب المناسک مع شرحہ، باب الجنایات،صفحہ422،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   ممنوعات احرام کے ارتکاب سے جہاں مفرد و متمتع پر ایک دم یا ایک صدقہ لازم ہوتا ہے،وہاں قارن پر دو دم یا دو صدقے لازم ہوتے ہیں،چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(وكل ما على المفرد به دم بسبب جنايته على إحرامه) يعني بفعل شيء من محظوراته لا مطلقا(فعلى القارن دمان، وكذا الحكم في الصدقة) فتثنى أيضا لجنايته على إحراميه‘‘ترجمہ:اور ہر وہ صورت جس میں احرام پر جنایت کے سبب مفرد پر ایک دم لازم ہوتا ہے،یعنی احرام کے ممنوعات کے ارتکاب   کرنے سے ،نہ کہ مطلقاً،تو وہاں قارن پر دو دم لازم ہوتے ہیں اور یہی  حکم صدقہ میں بھی ہے،لہذا قارن دو احراموں پر جنایت کے سبب صدقے بھی دو   ادا کرے گا۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد3،صفحہ701،702،دار المعرفۃ،بیروت)

   صدقہ کی ادائیگی حرم میں ضروری نہیں، اپنے شہر کے شرعی فقیر کو بھی دے سکتے ہیں ،مگر مکہ پاک کے شرعی فقیر کو دینا  افضل ہے ،چنانچہ تنویر الابصار مع درِ مختار ورد المحتارمیں ہے :وبین القوسین عبارۃرد المحتار: ”تصدق بنصف صاع من بركالفطرة ۔۔۔ أين شاء( أي في غير الحرم أو فيه ولو على غير أهله لإطلاق النص، بخلاف الذبح والتصدق على فقراء مكة أفضل)“ ترجمہ : صدقۂ فطر کی طرح آدھا صاع گندم صدقہ کرے ، جہاں چاہے  یعنی حرم کے علاوہ یا حرم میں ، اگرچہ حرم کے فقیر کے علاوہ کسی دوسرے فقیر پر کیونکہ اس بارے میں نص مطلق ہے ، برخلاف  جانور ذبح کرنے کے، اور   مکہ مکرمہ کے فقیروں پر صدقہ کرنا افضل ہے ۔(تنویر الابصار مع در مختار ورد المحتار ، جلد3 ، صفحہ672-671، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدقہ کی ادائیگی میں  قیمت اس مقام کے حساب سے دینی ہو گی ، جہاں صدقہ ادا کرنے والا ادائیگی کے وقت خود موجود ہو، چنانچہ فتاوی فقیہِ ملت میں ہے : ”ایامِ حج میں جو صدقہ واجب ہوتا ہے ، اس میں اس مقام کی قیمت معتبر ہو گی ، جہاں حاجی صدقہ دے ۔“(فتاوی فقیہ ملت ، جلد1 ، صفحہ359 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم