Nafli Tawaf Shuru Kiya To Poora Karna Lazim Hai? Poora Nahi Kiya To Kya Hukm Hai ?

نفلی طواف شروع کیا، تو پورا کرنا لازم ہے؟ پورا نہیں کیا تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fam-0100

تاریخ اجراء:02ربیع الاول1445ھ/19ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی  خاتون نےنفلی طواف کے دو چکر کر کے چھوڑ دئیے،تو کیا خاتون پراس نفلی طواف  کو پورا کرنا ضروری ہے؟ اگر  پورانہیں کیا، تو کیا  اس کے چھوڑنے پر کوئی کفارہ بھی  ہوگا؟ کیونکہ عورت کو پریگننسی (Pregnancy)  ہے، ساتواں مہینا ہے،کنڈیشن ایسی ہے کہ چلنا بہت مشکل ہے،مجبوری کے تحت چھوڑا ہے ،جان بوجھ کر نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفلی طواف شروع کردینے سے اُس کی ادائیگی ذمہ پر لازم ہوجاتی ہے اور اب اُس  کو پورا کرنا واجب  و ضروری ہوتا ہے۔ جو شخص نفلی طواف شروع کرکےاسے پورانہ کرے ،تو چاہے یہ پورا نہ کرنا  کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر،بہر صورت اُس پر کفارہ لازم ہوگا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ طواف قدوم کی طرح اگر  نفلی  طواف شروع کر کے ،اُس کے اکثر یعنی چار یا اس سے زائد پھیرے(چکر) ترک کرد یئے   تو دَم لازم  ہوگا اور اگر اقل یعنی چار سے کم ایک،دو یا تین پھیرے ترک کر دیئے،توہر پھیرے کے بدلے ایک صدقہ فطر  لازم ہوگا،ہاں اگر نفلی طواف نامکمل تھا، لیکن پھر پورا کرلیا، توچار پھیرے پورا کرلینے کی صورت میں  دَم ساقط اورزائد پورا کرنے کی صورت میں  صدقہ  ساقط ہوجائے گا۔

   مذکورہ   تمہید کے بعد صورت مسئولہ کا جواب یہ ہےکہ جب اس خاتون نے نفلی طواف  شروع کردیا  اور اس کے دو پھیرے بھی کرلیے،تو اب خاتون  پر اُس طواف کے بقیہ پانچ پھیروں کو  بھی پورا کرنا لازم ہےاور اس کو چھوڑدینے سے  دَم لازم ہوگا ،ہاں طواف پورا کرلینے کی صورت میں دَم ساقط ہوجائے گا۔ اگروہ خاتون اِس وقت  مکہ شریف میں ہی ہو ں، تو اُنہیں چاہیے کہ  اِس نفلی طواف کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک اُن کے لیے بحالتِ حمل چلنے میں دشواری کا معاملہ ہے،  تو اس کا حَل یہ ہے کہ اولاً وہ طواف ایسے وقت کریں کہ جب رَش نہ ہو ،پھر کسی مَحرم یا  دوسری خاتون کے سہارے،آہستہ آہستہ چل کر ایک ایک پھیرا پورا کرتی جائیں،پھیروں کے درمیان اگر وقفہ کرکے تھوڑا آرام  لینا چاہیں تو اِس کی بھی اجازت ہے کہ طواف کے پھیروں کو بغیر وقفہ دئیے ،پے در پے  کرناسنت ہے اور بلا عذر ان کے درمیان طویل وقفہ دینا مکروہ ہے،لیکن اگرکسی  عذر کی وجہ سے وفقہ دیا جائے،  جیسے تھک جانے پر آرام کرنے کے لیے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

   اور اگر خاتون کے لیے  کسی بھی طرح چلنا ممکن نہ ہو یا  چلنے میں ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہو، تو اب وہ خاتون اس عذر کی وجہ سے وہیل چیئر پر بھی طواف کرسکتی ہیں اور اس صورت میں وہیل چیئر پر طواف کرنے کی وجہ سے اُن پر کچھ بھی کفارہ  وغیرہ   لازم نہیں ہوگا ، کیونکہ عذر کی وجہ سے سواری پر طواف کرنا ،جائز ہوتا ہے اور کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا،البتہ اگر خاتون اس نفلی طواف کو کسی بھی طرح مکمل نہ کریں یاپھر وہ  اپنے وطن واپس  آچکی ہوں ،تو اب  اُن پر دَم کی ادائیگی لازم ہوگی ۔

   نفلی طواف شروع کردینے سے اس کو پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے،جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(ويلزم) أي إتمامه بالشروع فيه أي في طواف التطوع وكذا في طواف تحية المسجد وطواف القدوم، وقوله: بالشروع فيه أي بمجرد النية (كالصلاة) أي كما تلزم الصلاة بالشروع فيها بالنية مع تحقق سائر شروطها ‘‘ترجمہ:نفلی طواف  کو شروع کرنے سے اس کو پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے،اور طوافِ تحیۃ المسجد اور طوافِ قدوم کا بھی یہی حکم ہے۔اور ان کا قول طواف شروع کرنا یعنی صرف طواف کی نیت کرلینے سے اس کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے،  جیسے نماز دیگر شرائط کی موجودگی میں  نیت کے ساتھ شروع کرلینے سے لازم ہوجاتی ہے۔(لباب المناسک مع شرحہ،با ب انواع الاطوفہ،صفحہ203،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   نفلی طواف کا حکم  طواف قدوم کی طرح ہے اورفقہائے کرام نے  طواف قدوم کو طواف رخصت پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ترک کا بھی وہی حکم بیان فرمایا ہے،جو طوافِ رخصت کو ترک  کرنے کا حکم  ہے  یعنی اگر کوئی شخص طواف قدوم کے اکثر پھیرے ترک کرے، تو اس پر دَم لازم ہوگااور اگر اقل یعنی چار سے کم پھیرے  ترک کرے ،تو  ہر پھیرے کے بدلے صدقہ لازم ہوگا  ۔ اور یہی حکم نفلی طواف کا بھی ہوگا کہ طواف قدوم اور نفلی طواف دونوں ہی شروع کردینے سے واجب ہوجاتے ہیں۔

   نفلی طواف کا حکم طواف قدوم کی طرح ہے،جیسا کہ لباب المناسک میں ہے:’’وحکم کل طواف تطوع کحکم طواف القدوم‘‘ترجمہ:ہر نفلی طواف کا حکم طواف قدوم کے حکم کی طرح ہے۔(لباب المناسک ،فصل فی الجنایۃ فی طواف القدوم،صفحہ498،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   طوافِ رخصت کو ترک کرنے کے متعلقتنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(الواجب دم علی محرم بالغ...ترک طواف الصدرأو أربعۃ منہ...وان ترك ثلاثة من سبع الصدر تصدق بنصف صاع من بركالفطرة )يجب لكل شوط منه ‘‘ملتقطا و ملخصاً ترجمہ: اس محرم بالغ پر دم واجب ہے جو طواف صدر  مکمل یا اس کے (کم از کم) چار پھیرے ترک کردے۔اور اگر طواف صدر کے سات پھیروں میں سے تین پھیرے  ترک کرے،تو  ہر پھیرے کے بدلے  صدقہ فطر کی طرح آدھا صاع گندم صدقہ کرے۔(تنویر الابصار مع در مختار ،جلد3،صفحہ671-665،مطبوعہ کوئٹہ)

   طواف قدوم کے ترک کا حکم بھی طواف رخصت والا ہے،جیسا کہ اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:’’لم یصرحوا بحکم طواف القدوم لو شرع فیہ و ترک اکثرہ أو اقلہ ۔والظاھر انہ کالصدر لوجوبہ بالشروع‘‘ ترجمہ: فقہائےکرام نےاس بارےمیں تصریح نہیں کی کہ اگرکسی نے طوافِ قُدوم شروع کیااوراُس کےاکثریااقل پھیرےچھوڑدئیے،توکیاحکم ہے؟  ظاہریہ ہےکہ یہ طوافِ صدرکی طرح ہے،کیونکہ یہ شروع کرنے سے واجب ہوجاتا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،صفحہ665،مطبوعہ کوئٹہ)

   حاشيہ ارشاد الساری میں ہے:’’وفی رد المحتار۔۔۔لو ترک اقلہ تجب فیہ الصدقۃ،ولو ترک اکثرہ یجب فیہ الدم لانہ الجابر لترک الواجب  فی الطواف کسجود السھوفی ترک الواجب فی النافلۃ۔وقال العلامۃ طاھر سنبل:۔۔۔وکذاکل طواف تطوع لانہ کا لقدوم لوجوبہ بالشروع ‘‘ملتقطاً ترجمہ:رد المحتار میں ہے:اگر کسی  نےطوافِ قدوم کےاقل پھیرے چھوڑے،تواُس پرصدقہ لازم ہوگا اوراگراس کےاکثرپھیرےچھوڑے،تواُس پردَم لازم ہوگا،کیونکہ طواف میں واجب چھوڑنےکی وجہ سےدَم اسی طرح لازم ہے،جیسےنفلی نمازمیں واجب کوترک کرنے میں سجدۂ سہو لازم ہے۔ اور علامہ طاہر سنبل نے فرمایا اور اسی طرح ہر نفلی طواف کا حکم ہے کیونکہ وہ طواف قدوم کی طرح شروع کرنے سے واجب ہوجاتا ہے۔ (حاشیۃ ارشاد الساری،فصل فی الجنایۃ فی طواف القدوم،صفحہ499،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   نفلی طواف کے تما م یا اکثر پھیرے  ترک کرنے کے بعد اگر اس کو ادا کرلیا، تو دَم ساقط ہوجائے گا، جیسا کہ طوافِ صدر کے متعلق الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:’’وأما ترك طواف الصدر أو أربعة منه فلتركه الواجب، وللأكثر حكم الكل، ويؤمر بالإعادة ما دام بمكة ويسقط الدم‘‘ترجمہ:بہرحال طوافِ صدرمکمل یا اس کے چار پھیروں کا ترک (تو اس پر دم کا حکم) واجب طواف کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے اور اکثر کے لیے کُل کا حکم  ہے اور جب تک طوافِ صدر کو ترک کرنے والا شخص مکہ میں ہو، تو اُسے طواف کرنے کا حکم دیا جائے گا اور(اگر وہ طواف کرلےتو)دم ساقط ہوجائے گا۔(الاختیار لتعلیل المختار ،جلد1،با ب الجنایات،صفحہ163،مطبوعہ حلبی،قاھرہ)

   طواف کے پھیروں کاپے در پے ہونا سنت ہے،جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح کی فصل فی سُنن الطواف میں ہے:’’(والموالاۃ) أی المتابعۃ( بین الاشواط) أی اشواط الطواف‘‘ترجمہ:اور طواف کے پھیروں کے درمیان موالات  یعنی  پے در پے  ہونا سنت ہے۔(لباب المناسک مع شرحہ ،فصل فی سنن الطواف،صفحہ226،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   طواف کے پھیروں کے درمیان بلا عذر وقفہ کرنا، مکروہ ہے،عذر کی وجہ سے ہو،تو کوئی حرج نہیں،جیسا کہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’إذا خرج لغير حاجة كره ولا يبطل فقد قال في اللباب ولا مفسد للطواف وعد من مكروهاته تفريقه أي الفصل بين أشواطه تفريقا كثيرا‘‘ترجمہ:جب کوئی شخص دورانِ طواف بغیر کسی حاجت کے چلا جائے (جس سے طواف کے پھیروں میں وقفہ ہو)تو یہ مکروہ ہے اور اس سے طواف باطل نہیں ہوگا ۔پس لباب میں فرمایا کہ یہ طواف کو فاسد  کرنے والا نہیں ۔اورپھیروں کے درمیان تفریق یعنی  زیادہ  فاصلہ دینے کو طواف  کے مکروہات میں شمار کیا ہے   ۔ (رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،کتاب الحج ،صفحہ582،مطبوعہ کوئٹہ)

   عذر کی وجہ سے سواری پر طواف کرنا ،جائز ہے اور اس سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا،جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے:’’إن طاف راكبا أو محمولا فإن كان لعذر من مرض أو كبر لم يلزمه شيء ‘‘ترجمہ:اگر کسی نے عذرِ شرعی مثلاً: مرض یا بڑھاپے کے سبب سواری یا کسی کے کندھوں پر بیٹھ کر طواف کیا، تو اُس پر کچھ لازم نہیں۔(مبسوط سرخسی، جلد4، صفحہ45، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم