Namaz Mein Aurat Ke Agle Maqam Se Awaz Ke Sath Hawa Kharij Ho Tu Namaz Aur Wazu Ka Hukum?

نماز میں عورت کے اگلے مقام سے آواز کے ساتھ ہوا خارج ہو تو نماز اور وضو کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12877

تاریخ اجراء: 02 ذو الحجۃ الحرام1444 ھ/21جون 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دورانِ نماز عورت کے اگلے مقام سے آواز کے ساتھ ہوا خارج ہو، تو اس صورت میں نماز اور وضو کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صحیح قول  کے مطابق مر د یا عورت کے اگلے مقام سے ہوا خارج ہونے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا، لہذا دورانِ نماز عورت کے اگلے مقام سے آواز کے ساتھ ہوا خارج ہوجائے،  تب بھی اس عورت کی نماز اور وضو نہیں ٹوٹے گا۔

   البتہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کسی  عورت کی اگلی اور پچھلی شرمگاہ پردہ پھٹنے کے سبب آپس میں مل گئی ہو تو ایسی عورت ہوا خارج ہونے کی صورت میں احتیاطاً وضو کرے، اگرچہ اس بات کا احتمال ہو کہ یہ ہوا  عورت کے اگلے مقام سے خارج ہوئی ہے۔

   اگلے مقام سے خارج ہونے والی ہوا ناقضِ وضو نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:والريح الخارجة من الذكر وفرج المرأة لا تنقض الوضوء على الصحيح إلا أن تكون المرأة مفضاة فإنه يستحب لها الوضوء، كذا في الجوهرة النيرة “یعنی صحیح قول کے مطابق وہ ریح جو مرد یا عورت کی اگلی شرمگاہ سے خارج ہو ناقضِ وضو نہیں، مگر ایسی عورت  جس کے دونوں مقام پردہ پھٹنے کے سبب ایک ہوچکے ہوں اس کے اگلے مقام سے ہوا خارج ہو  تو اس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، جیسا کہ جوہرۃ النیرۃ میں مذکور ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 09، مطبوعہ پشاور)

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:لا خروج (ريح من قبل) غير مفضاة، أما هي فيندب لها الوضوء، وقيل: يجب، وقيل: لو منتنة“یعنی ایسی عورت کے جس کی اگے اور پیچھے کی شرمگاہ الگ الگ ہو ، اس عورت کے اگلے مقام سے ہوا خارج ہونا،  ناقضِ وضو نہیں۔ ہاں! جس عورت کے دونوں مقام ایک ہوچکے ہوں اس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔  یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لیے وضو کرنا واجب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگلے مقام سے خارج ہونے والی ہوا بدبودار ہو تو وضو کرنا واجب ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار  میں ہے:”(قوله: أما هي إلخ) أي المفضاة: وهي التي اختلط سبيلها: أي مسلك البول والغائط، فيندب لها الوضوء من الريح: وعن محمد يجب احتياطا. وبه أخذ أبو حفص ورجحه في الفتح بأن الغالب في الريح كونها من الدبر: ومن أحكامها أنه لا يحلها الزوج الثاني للأول ما لم تحبل لاحتمال الوطء في الدبر، وأنه لا يحل وطؤها إلا إن أمكن الإتيان في القبل بلا تعد۔ وأما التي اختلط مسلك بولها ووطئها فينبغي أن لا تكون كذلك لأن الصحيح عدم النقض بالريح الخارجة من الفرج ولأنه لا يمكن الوطء في مسلك البول أفاده في البحر (قوله: وقيل: لو منتنة) أي لأن نتنها دليل أنها من الدبر. وعبارة الشيخ إسماعيل: وقيل: إن كان مسموعا أو ظهر نتنه فهو حدث وإلا فلا “ترجمہ: ” (قوله: أما هي إلخ) مفضاۃ سے مراد وہ عورت ہے کہ جس کے دونوں مقام یعنی کہ پیشاب اور پاخانے کی جگہ ملی ہوئی ہو، ایسی عورت کو  ہوا خارج ہونے کی صورت میں وضو کرنا مستحب ہے۔ امام محمد علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ احتیاطاً اس عورت کے لیے وضو کرنا واجب ہے۔ اسی بات کو ابو حفص نے لیا اور فتح القدیر میں اسے ہی راجح قرار دیا ہے کیونکہ ریح میں غالب یہی ہے کہ وہ دبر سے خارج ہوتی ہے۔ مفضاۃ کے احکام میں سے یہ ہے کہ دوسرا شوہر دبر میں وطی کے احتمال کی وجہ سے  پہلے کے لیے حلال نہیں کرتا جب تک کہ وہ حاملہ نہ ہوجائے ، مزید یہ کہ اس سے وطی حلال نہیں مگر جبکہ بلا تعدی اگلے مقام میں وطی ممکن ہو۔ بہر حال وہ عورت  جس کے وطی اور پیشاب کے مقام مل کر ایک ہوگئے ہوں تو یہ عورت مفضاۃ کی طرح نہیں ہونی چاہیے کیونکہ صحیح قول کے مطابق فرج سے خارج ہونے والی ہوا ناقضِ وضو نہیں اور اس وجہ سے بھی کہ  پیشاب کے رستے میں وطی کرنا ممکن نہیں، اس بات کا افادہ صاحبِ بحر نے فرمایا ہے۔ (قوله: وقيل: لو منتنة) کیونکہ اس کا بدبودار ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ دبر سے آئی ہے اور یہ شیخ اسماعیل کی عبارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ ہوا آواز کے ساتھ خارج ہو یا بدبودار ہو تو حدث ہوگی ورنہ نہیں۔ “(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 136، مطبوعہ بیروت)

   جد الممتار   میں ہے:”اقول دلت المسئلۃ علی أنّه ليس كلّ خارجٍ من أحد السبيلَين ناقضاً مطلقاً ما لم يكن نجساً أو ريحاً منبعثةً عن محلّ النجاسة، ولو كان الحكم كلّيّاً لنَقَضَت الريح الخارجة من ذكر أو من فرْجیعنی  میں کہتا ہوں مسئلہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ سبیلین میں سے کسی ایک مقام سے خارج ہونے والی چیز مطلقاً ناقضِ وضو نہیں جب تک کہ وہ نجاست یا ایسی ہوا نہ ہو  جو محلِ نجاست سے آئی ہو۔ اگر یہ حکم کلی ہو تو ذکر یا فرج سے خارج ہونے والی ہوا  سے بھی وضو ٹوٹ جاتا (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔(جد الممتار، کتاب الطہارۃ، ج 01، ص 406، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فتاوٰی رضویہ پہلی جلد کے حاشیے  میں ہے:”جس عورت کے دونوں مسلک پردہ پھٹ کرایک ہوگئے ، اسے جو ریح آئے احتیاطاً وضوکرے اگرچہ احتمال ہے کہ یہ ریح فرج سے آئی ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مع حاشیۃ، ج 01 (ب)، ص 749، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” مر د یا عورت کے آگے سے ہَوا نکلی یا پیٹ میں ایسا زخم ہوگیا کہ جِھلّی تک پہنچا ،اس سے ہَوا نکلی تو وُضو نہیں جائے گا۔ عورت کے دونوں مقام پردہ پَھٹ کر ایک ہوگئے اسے جب رِیح آئے اِحْتِیاط یہ ہے کہ وُضو کرے اگرچہ یہ احتمال ہو کہ آگے سے نکلی ہوگی۔ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 304، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم