جانوروں میں مضاربت کا طریقہ؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10391

تاریخ اجراء:07جمادی الثانی1442ھ/21جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  زید  کے پاس  کچھ رقم ہے اور وہ اسامہ کو  جانور  خرید کے دینا چاہتا ہے  ، اسامہ ان جانوروں  کو پالے گا  اوروہ جانور قربانی پہ فروخت کیے جائیں گے۔ جو منافع ہوگا وہ دونوں آپس میں برابر تقسیم کریں گے ،اس طریقے سے شرکت  کرنا کیسا ہے؟اگر ناجائز ہے، تو اس کا درست طریقہ ارشاد فرمادیں۔

    نوٹ: جانور ابھی تک  نہیں خریدے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں بیان کردہ طریقہ (جس میں ایک شخص جانور دے گا  اور دوسرا ان کو پالے گا  اور بقر عید پہ ان کو فروخت کرکے  حاصل ہونے والا منافع آپس میں برابر، برابر تقسیم کر لیا جائےگا ) کے مطابق عقد کرنا شرعاً درست نہیں ہے ،بلکہ یہ اجارہ فاسدہ ہے ، کیونکہ اس میں اجرت مجہول ہے کہ معلوم نہیں بقر عید تک یہ جانور زندہ بھی رہیں گے یا نہیں اور جب بکیں گے تو کتنی قیمت لگے گی؟ جبکہ اجارے میں اجرت کا معلوم ہونا ضروری ہے،ورنہ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے،اس کا ایک  درست طریقہ  یہ ہے کہ زید اور اسامہ آپس میں مضاربت کر لیں  یعنی زید اسامہ کو رقم دے دے  تاکہ وہ اس رقم سے جانور خرید ے اور ان کے چارے وغیرہ کے اخراجات بھی اسی رقم سے کرے ،پھر بقر عید کے موقع  پہ انہیں فروخت کر دے اور نفع میں دونوں کا حصہ  فیصد کے اعتبار سے طے  کر لیں  اور اس میں دونوں کو اختیار ہے کہ باہم برابر حصہ طے کریں یا کم و بیش اورمضاربت میں نفع نکالنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ چیز فروخت ہونے کے بعد، پہلے مضاربت سے متعلق ہونے والے ضروری اخراجات  (  جیسا کہ یہا ں جانور لانے  کے لیے گاڑی کا کرایہ ، ان کو پالنے کا خرچہ وغیرہ ) نکالے جائیں ، اصل انویسٹ کو پورا کیا جائے، اس کے بعد جو بچے وہ خالص نفع ہے ، جو دونوں کے درمیان طے شدہ فیصد کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا ۔

    اگر مضاربت میں نقصان ہو جائے،تو اس کا اصول یہ ہوتا ہے کہ  کام کرنے والے کی تعدی(لاپرواہی ) کے بغیر نقصان ہو جائے ،تو نفع سے پورا کیا جاتا ہے اور اگر نقصان نفع سے زیادہ ہو،تو ایسی صورت میں مالی نقصان ، مال والے کا ہوتا ہے، کام کرنے والے کی محنت ضائع    ہو جاتی ہے ۔

    بحر الرائق میں ہے:”إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقرة، وله على صاحب البقرة ثمن العلف، وأجر مثله“جب کوئی شخص گائے کسی دوسرے کو دے کہ وہ اسے چارہ کھلائے تاکہ جو کچھ اس سے پیدا ہو وہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو ،تو جو کچھ اس سے پیدا ہوگا، وہ گائے والے کا ہوگا اور  وہ پالنے والے کوگائے کے چارے کی قیمت اوراس کے عمل کی اجرت مثل دے گا۔

(البحر الرائق،جلد6،صفحہ129،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی امجدیہ میں ہے :”جانور کو اس طرح چرائی  پہ دینا کہ جو بچہ پیدا ہوگا  اس کے نصف کا حق دار  چرانے والا ہوگا ،ناجائز ہے اور یہ اجارہ فاسدہ ہے۔ “

(فتاوی امجدیہ ،جلد 3،صفحہ282،مکتبہ رضویہ ،کراچی)

    درمختار میں ہے:’’(و) تفسد(بجهالة المسمى) كله أو بعضه‘‘ ترجمہ:اورمقررہ اجرت مکمل یابعض مجہول ہونے سے اجارہ فاسدہوجاتاہے ۔

   (الدرالمختارمع ردالمحتار، ،جلد06،صفحہ48،دارالفکر،بیروت)

    درمختار میں مضاربت کی تعریف کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’عقدشرکۃ فی الربح بمال من جانب رب المال وعمل من جانب المضارب‘‘ترجمہ:رب المال کی طرف سے مال اورمضارب کی طرف سے عمل کے ساتھ نفع میں عقد شرکت کا نام مضاربت ہے۔

 (درمختارمع ردالمحتار،جلد8،صفحہ497، مطبوعہ کوئٹہ)

    درمختارمیں مضاربت کی شرائط بیان کرتے ہوئے تحریرفرمایا:”(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد ‘‘ترجمہ:نفع کامضارب اوررب المال کے درمیان شائع ہونا(یعنی فیصدی اعتبارسے ہونا) ۔ پس اگراس نے ( رقم میں ) کوئی مقدارمعین کردی،تومضاربت فاسدہوجائے گی اورعقدکے وقت ہی ان میں سے ہرایک کاحصہ معلوم ہونا۔

(الدرالمختارمع ردالمحتار، جلد05،صفحہ648،دارالفکر،بیروت)

    درمختار میں ہے: ’’(ويأخذ المالك قدر ما أنفقه المضارب من رأس المال إن كان ثمة ربح، فإن استوفاه و فضل شيء) من الربح (اقتسماه) على الشرط،لأن ما أنفقه يجعل كالهالك، والهالك يصرف إلى الربح كما مر.(وإن لم يظهر ربح فلا شيء عليه) أي المضارب‘‘ترجمہ: اگروہاں نفع ہو،تومالک اتنا مال لے گا جتنا مضارب نے راس المال میں سے خرچ کیا ،پس اگر وہ اس کو پورا کردے اور نفع میں سے کچھ بچ جائے،تو وہ دونوں اس کو طے شدہ حساب سے تقسیم کرلیں،کیونکہ جو اس نے خرچ کیا وہ ہلاک ہونے والے کی طرح ہے  اور ہلاک ہونے والے کو نفع کی طرف پھیرا جاتا ہے ،جیساکہ گزرااور اگر نفع ظاہر نہ ہو،تو مضارب پر کچھ نہیں ہے ۔

 (الدرمختار مع رد المحتار ، جلد5،صفحہ658،دارالفکر ،بیروت)

    بہارشریعت میں ہے: ’’ جو کچھ نفع ہوا پہلے اس سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں گے جو مضارِب نے راس المال سے کیے ہیں، جب راس المال کی مقدار پوری ہوگئی، اُس کے بعد کچھ نفع بچا، تو اُسے دونوں حسبِ شرائط تقسیم کرلیں اور نفع کچھ نہیں ہے تو کچھ نہیں۔“

(بہارشریعت،جلد3،حصہ14،صفحہ25،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:’’مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے،وہ اپنی تعدی ودست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ،جو نقصان واقع ہو ، سب صاحبِ مال کی طرف رہے گا۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ ،جلد19،صفحہ131،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم