بچّے گود دینے کا ایک اہم مسئلہ

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2017

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کی رضا کے ساتھ اپنے دو بیٹے اپنی سالی کو گود دئیے تھے۔ بچّوں کی عُمْر اس وقت ایک دن تھی۔ اب ان کی عُمْریں8اور10 سال کی ہیں، اب زید اپنے بچّے ان سے واپس  لینا چاہتا ہے۔ کیا وہ واپس لینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟بچّوں سے رَضاعت کا رشتہ قائم نہیں کیا گیا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ہمارے مُعاشَرےمیں جب کو ئی شخص اپنا بیٹا کسی عزیز کو گود دیتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ واپس نہیں لے گا وہ بچہ گود لینے والے کے پاس رہے گا اور اس کی  مکمل تعلیم و تربیت کا انتظام بھی یہ ہی کرے گا تو گویا کہ بچہ گود دینے  کے ضمن  میں عُرفاً واپس نہ لینے کا وعدہ ہوتا ہے اور اَلْمَعْرُوْف کَالْمَشْرُوْط یعنی عرفاً ثابت شدہ بات ایسی ہے جیسے صراحتاً کہی ہو لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کو وعدہ کی پاسداری کرنی چاہئے بچے واپس نہ لینے چاہئیں جبکہ وہاں بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی حرج لازم نہ آتا ہو اور اگر تعلیم و تربیت درست طریقہ پر نہ ہو رہی ہو تو بچے واپس لے لینے چاہئے اور یہ وعدہ خلافی بھی نہیں کہلائے گی جبکہ دیتے وقت واپس نہ لینے کا ذہن ہو۔

     بہر حال یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اپنا بچہ کسی کو گود دینا جائز ہے مگر گود دینا کوئی ایسا عَقْد(مُعاہَدہ )نہیں جس سے وہ حقیقی والد سے لا تعلق ہوجاتا ہو اور گود لینے والا اس کا مالک بن جاتا ہو یا یہ اس کا حقیقی بیٹا بن جاتا ہو کہ کہا جائے حقیقی والد واپس نہیں لے سکتا بلکہ صرف اتنا ہے کہ والد نے اپنا حقِّ پرورش دوسرے کو دے دیا اور یہ حق  دوسر ے کو دینے کے بعد واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جس عورت کو حقِّ پرورش حاصل ہو اگر وہ اپنا حق ساقط کرکے دوسری عورت کو دے دے  پھر بچے واپس لینا چاہے اور وہ پرورش کی اہل بھی ہو تو وہ واپس لے سکتی ہے اور اگر بچے کو پالنے والے کے پاس چھوڑنے کی وجہ سے احکامِ شرع کی خلاف ورزی کا خوف ہو تو بچہ ضرور واپس لے لینا چاہئے۔امامِ اَہلِ سنّت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن سے جب اسی طرح کا سوال پوچھا گیا جس میں لے پالک لڑکی کا ذِکر تھا اور وہ مُرَاہِقَہ(یعنی وہ لڑکی جو بالغ ہونے کے قریب ہو)یا بالغہ ہو چکی تھی اور لے کر پالنے والا اجنبی تھا تو اس میں چونکہ بے پردگی اور فتنہ کا مَظِنَّہ (یعنی فتنہ کاگُمان ہونےکا مقام)تھا اور باپ واپس لینا چاہتا تھا  اس لئے امامِ اَہلِ سنّت نے جواباً بِالتَّاکِیْدفرمایا: ”اب کہ بالغہ ہوئی یا قریبِ بلوغ پہنچی جب تک شادی نہ ہو ضرور اس کو باپ کے پاس رہنا چاہئے یہاں تک کہ نو برس کی عُمْر کے بعد سگی ماں سے لڑکی لے لی جائے گی اور باپ کے پاس رہے گی نہ کہ اجنبی جس کے پاس رہنا کسی طرح جائز ہی نہیں، بیٹی کرکے پالنے سے بیٹی نہیں ہوجاتی، اس نے جو خرچ کیا اپنی اولاد بنا کر کیا،نہ کہ بطورِ قرض، لہٰذا واپسی کا بھی مستحق نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، 13/413)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم