والدکے بجائےپرورش کرنے والے کا نام استعمال کرنا

مجیب:مولاناجمیل غوری صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ایک شخص بنگلہ دیش سے تعلق رکھتا ہے آٹھ سال کی عمر سے وہ پاکستان میں رہائش پذیر ہے اور اس کے والدین بنگلہ دیش میں ہیں۔ وہ یہاں اپنی قوم کے ایک شخص کی پرورش میں رہا اور ولدیت میں باپ کے بجائے اس پرورش کرنے والے شخص کا نام اس کے تمام کاغذات میں لکھا گیا یہاں تک کہ نکاح نامے میں بھی اس  پرورش کرنے والے کا نام لکھا گیا ہے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور اس سے نکاح ہوجائے گا یا نہیں؟ جبکہ نکاح کے وقت نکاح خواں نے شوہر سے ایجاب و قبول کروایا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     نکاح نامہ ہو یا کسی بھی قسم کے قانونی کاغذات ہوں ان میں ولدیت لکھنے کی جگہ اصل والد ہی کا نام لکھنا ضروری ہے اور کسی کے پوچھنے پر ولدیت بتاتے وقت بھی حقیقی والد کا ہی نام بتانا ضروری ہے لکھنے بولنے کسی بھی موقع پر ولدیت کی جگہ پھوپھا چچا یا کسی بھی دوسرے شخص کا نام لینا یا لکھنا جائز نہیں۔

     شریعتِ مطہرہ نے دوسرے کے بچے کو ازروئے نسب اپنی طرف منسوب کرنے یا اپنے آپ کو دوسرے کی طرف منسوب کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ اپنانسب بدلنے والے شخص پر حدیث شریف میں لعنت بھی فرمائی گئی ہے۔

     جہاں تک معاملہ نکاح کا ہے تو دولہے کی ولدیت میں تبدیلی کے باوجود بھی نکاح صحیح ہوجائے گا اس لئے کہ جب شوہر خود مجلس عقد نکاح میں موجود ہے اور قبول بھی وہ خود ہی کررہا ہے تو نکاح کے درست ہونے کے لئے اس کا یا اس کے اصل والد کا نام لینا کچھ ضروری نہیں۔ البتہ لڑکی سے نکاح کی وکالت لیتے وقت (ایک نام کے متعدد افراد ہونے کی وجہ سے اشتباہ ہونے کی صورت  میں اگر) فقط شوہر کے نام سے تعیین نہ ہوتی ہو تو اب اس کے والد کا نام لینا تعیین کے لئے ضروری ہے اور اگر والد کا نام لینے سے بھی وہ مُعَیَّن نہ ہورہا ہو بلکہ پرورش کرنے والے کابیٹا ہونے کی حیثیت سے مشہور ہونے کے باعث پرورش کرنے والے کا نام لینے سے مُعَیَّن ہوجاتا ہو تو لڑکی کو شوہر کے نام کے ساتھ پرورش کرنے والے  کا نام ولدیت میں بتاکر وکالت و اجازت لی گئی ہو تو اس صورت میں وکالت درست ہوجائے گی اور نکاح پر کچھ اثر نہیں پڑے گا لیکن یاد رہے تب بھی نکاح نامے پر ولدیت میں پرورش کرنے والے کا نام لکھنا جائز نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم