Bachi Goud Lene Ke Shari Ahkam?

بچی گود لینےکے شرعی احکام

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Har 5187

تاریخ اجراء:18جمادی الاخری1440ھ/24فروری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بھتیجی گود لی ہے۔سوال یہ ہے کہ قانونی دستاویزات میں ولدیت کے خانے میں کس کا نام لکھوانا ہو گا،گود لینے والے یعنی میرے شوہر کا یا بچی کے حقیقی باپ کا؟نیز وہ اپنے حقیقی باپ کی وراثت سے حصہ پائے گی یا گود لینے والے کی وراثت سے حصہ پائے گی؟

    نوٹ:لے پالک بچی کا گود لینے والے سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قوانینِ شرعیہ کے مطابق بچے یا بچی کو بطورِ ولدیت حقیقی والد کے علاوہ گود لینے والے یا اس کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا سخت ناجائز و حرام ہے ، کیونکہ گود لینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور لے پالک بچہ و بچی بدستور اپنے باپ کی اولاد رہتے ہیں ، لہٰذا صورتِ مستفسرہ میں قانونی دستاویزات مثلاً : شناختی کارڈ،پاسپورٹ وغیرہ،یونہی زبانی پکارنے میں ولدیت کی جگہ  پر اس بچی کے حقیقی باپ ہی کا نام بولنا اور لکھنا ضروری ہے،گود لینے والے کا نام بطور والد بولنے یا لکھنے کی ہرگز اجازت نہیں،البتہ بطورِ سرپرست اس کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔

    نیز جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ گود لینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور لے پالک بچہ یا بچی بدستور اپنے باپ کی ہی اولاد رہتے ہیں،گود لینے والےکی نہ اولاد ہوتے ہیں،نہ اس اعتبار سے اس کے وارث،لہٰذا مذکورہ بچی،گود لینےوالے کی کسی صورت  وارث نہیں بنے گی ، بلکہ اپنے حقیقی باپ کے انتقال کے وقت زندہ ہونے اور موانعِ ارث (وراثت سے محروم کرنے والے اسباب) نہ پائے جانے کی صورت میں  اپنے حقیقی باپ ہی کی وارث ہو گی۔

    اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:﴿ اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ ۚ فَاِنۡ لَّمْ تَعْلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوٰنُکُمْ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوٰلِیۡکُمْ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان :”انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو ۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشَریت میں تمہارے چچا زادیعنی تمہارے دوست۔“

(القرآن،پارہ21،سورۃالاحزاب،آیت5)

    اس آیتِ مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”یعنی ممانعت کے بعد اگر تم دیدہ دانستہ لے پالکوں کو ان کے مربی(پالنے والے)کا بیٹا کہو گے تو گناہ گار ہوگے۔“

(تفسیر نور العرفان،ص503،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)

    رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من ادعی الی غیر ابیہ و ھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام“ جس نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا حالانکہ اسے علم تھا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔

(صحیح بخاری،ج2،ص533،حدیث6766،مطبوعہ لاھور)

    شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ اسی مضمون کی ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”جان بوجھ کر اپنے نسب کو بدلنا حرام و گناہ ہے۔نسب بدلنے کی دو صورتیں ہیں:ایک نفی یعنی اپنے باپ سے نسب کا انکار کرنا،دوسرے اِثبات یعنی جو باپ نہیں اسے اپنا باپ بتانا،دونوں حرام ہیں۔ملخصا۔“

(نزھۃ القاری،ج4،ص496،مطبوعہ فرید بک سٹال،لاھور)

    لے پالک کے وارث نہ ہونے کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:”پسرخواندہ نہ چنیں کس راپسرمی شود نہ خود بے علاقہ ازپدر ان الحقائق لاتغیّر،شرعاً وارث پدر ست نہ اینکس دیگر۔“منہ بولا بیٹا نہ ایسے شخص کا بیٹا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق کیونکہ حقیقتوں میں تغیر نہیں ہوتا،شرعی طور پر وہ اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔

(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص178،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” تبَنی کرنا یعنی لڑکا گود لینا شرعاً منع نہیں،مگر وہ لڑکا اس کا لڑکا نہ ہوگا بلکہ اپنے باپ ہی کا کہلائے گا اور وہ اپنے باپ کا ترکہ پائے گا۔گود لینے والے کا نہ یہ بیٹا ہے نہ اِس حیثیت سے اس کا وارث،ہاں اگر وارث ہونے کی بھی اس میں حیثیت موجود ہے مثلاً بھتیجا کو گود لیا تو یہ وارث ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اور مانع نہ ہو۔“

(فتاوی امجدیہ،ج3،ص365،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

    یاد رہے کہ لے پالک بچہ و بچی صرف گود لینے سے مَحرَم نہیں بن جاتے،لہٰذا جب وہ بچی گود لینے والے یعنی آپ کے شوہر کی محرم نہیں ہے ، تو ہجری سِن کے لحاظ سے جب پندرہ سال کی ہو جائےیا نو سے پندرہ سال کی عمر کے دوران بالغہ ہونے کے آثار ظاہر ہو جائیں مثلاً احتلام ہو جائے یا حیض آ جائے یا حاملہ ہو جائے  تو اس بچی اور آپ کے شوہر کےدرمیان پردہ فرض ہو گا اور اگر آثارِ بلوغ ظاہر نہ ہوں ، تو مستحب،خصوصاً ہجری سن کے اعتبار سے بارہ سال کی عمر ہو جانے کے بعد پردے کا ضرور خیال رکھا جائے کہ اس کی بہت تاکید ہے۔

    البتہ اگر آپ یا گود لینے والے کی کوئی محرم عورت جیسے  ماں،دادی،نانی،بہن،بھتیجی وغیرہ مذکورہ بچی کو اس کی عمر دو سال ہونے سے پہلے اپنا دودھ پلا دے گی،تو اس صورت میں آپ کے شوہر کا اس بچی سے رضاعی رشتہ قائم ہو جائے گا اور بعدِ بلوغت پردہ واجب نہیں ہو گا۔خیال رہے کہ ڈھائی سال کی عمر ہونے تک دودھ پلانے سے بھی اگرچہ حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ، لیکن دو سال کی عمر ہو جانے کے بعد دودھ پلانا ، جائز نہیں، لہٰذا رضاعی رشتہ قائم کرنے کے لیے دو سال کی عمر سے پہلے دودھ پلایا جائے،اس کے بعد حرام ہے۔

    تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے:”(بلوغ الجاریۃ بالاحتلام و الحیض و الحبل فان لم یوجد)شئ(فحتی یتم خمس عشرۃ سنۃ،بہ یفتی)لقصر اعمار اھل زماننا(و ادنی مدتہ لھا تسع سنین)ھو المختار۔ملخصا۔“لڑکی کا بالغ ہونا احتلام،حیض اور حمل ٹھہرنے سے ہوتا ہے،اگر ان میں سے کچھ نہ پایا جائے تو یہاں تک کہ پندرہ سال پورے ہو جائیں(تو بالغہ ہو جائے گی)،اسی پر فتویٰ دیا جائے گا ہمارے زمانے کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سےاور بلوغت کی کم سے کم مدت لڑکی کے لیے نو سال ہے،یہی مختار ہے۔

(تنویر الابصارو درمختار،ج9،ص259۔260،مطبوعہ کوئٹہ)

    مدتِ رضاعت کے متعلق تنویرالابصار و درِمختار میں ہے:”(ھو فی وقت مخصوص،حولان و نصف عندہ و حولان)فقط (عندھما و ھو الاصح)فتح،و بہ یفتی کما فی تصحیح القدوری۔ملخصا۔“یہ مخصوص وقت میں ہے،امامِ اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک دو اور نصف سال اور صاحبین علیہما الرحمۃ کے نزدیک صرف دو سال،اور یہی اصح ہےفتح۔اور اسی کے ساتھ فتوی دیا جاتا ہے جیسا کہ تصحیح القدوری میں ہے۔

(تنویر الابصارو درمختار،ج4،ص387،مطبوعہ کوئٹہ)

    مجمع الانہر میں ہے:”الارضاع بعد مدتہ حرام لانہ جزء الآدمی و الانتفاع بہ لغیر ضرورۃ حرام علی الصحیح۔“دودھ پلانا اس کی مدت گزرنے کے بعد حرام ہے کیونکہ یہ آدمی کا جزء ہے اور اس سے بلاضرورت نفع اٹھانا صحیح قول کے مطابق حرام ہے۔

(مجمع الانھر،ج1،ص552،مطبوعہ کوئٹہ)

    دودھ چھڑانے،نیز نکاح حرام ہونے کی مدت کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:” فالاحوط ان یعمل بقولھما فی الفِطام و بقولہ فی التحریم عملاً بالاحتیاط فی الموضعین۔“پس احوط یہ ہے کہ دودھ چھڑانے میں صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے اور (نکاح) حرام ہونے میں امامِ اعظم علیہ الرحمۃ کے قول پر،دونوں مقامات میں احتیاط پر عمل کرتے ہوئے۔

(جد الممتار،ج4،ص657،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    رضاعی رشتے کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”یحرم علی الرضیع ابواہ من الرضاع و اصولھما و فروعھما من النسب و الرضاع جمیعاً حتی ان المرضعۃ لو ولدت من ھذا الرجل او غیرہ قبل ھذا الارضاع او بعدہ او ارضعت رضیعاً او ولد لھذا الرجل من غیر ھذہ المراۃ قبل ھذا الارضاع او بعدہ او ارضعت امراۃ من لبنہ رضیعا فالکل اخوۃ الرضیع و اخواتہ واولادھم اولاد اخوتہ و اخواتہ واخو الرجل عمہ و اختہ عمتہ و اخو المرضعۃ خالہ و اختھا خالتہ۔“دودھ پینے والے بچے پر رضاعی ماں باپ، ان کے اصول اور دونوں کی نسبی یا رضاعی اولاد حرام ہے حتی کہ اگر دودھ پلانے والی نے اِس دودھ پلانے سے پہلے یا بعد،اسی شوہر یا اس کے علاوہ کسی اور شوہر سے کوئی بچہ جنا یا کسی کو دودھ پلایا یا اس آدمی کے پاس اس کے علاوہ کسی اور عورت سے اس دودھ پلانے سے پہلے یا  بعد کوئی بچہ پیدا ہوا، یا عورت نے اس کے دودھ سے کسی بچے کو دودھ پلایا تو یہ سب دودھ پینے والے بچے کے رضاعی بھائی بہن اور ان کی اولادیں اس کے بھتیجے،بھتیجیاں اور بھانجے،بھانجیاں ہیں اور مرد(رضاعی باپ)کا بھائی اس کا چچا اور اس کی بہن اس کی پھوپھی اور دودھ پلانے والی کا بھائی اس کا ماموں اور اس کی بہن اس کی خالہ ہے۔

(عالمگیری،ج1،ص343،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن پردے کے ا حکام کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:”نو برس سے کم کی لڑکی کو پردہ کی حاجت نہیں اور جب پندرہ برس کی ہو ، سب غیر محارم سے پردہ واجب اور نو سے پندرہ تک اگر آثارِ بلوغ ظاہر ہوں تو واجب اور نہ ظاہر ہوں تو مستحب،خصوصا بارہ برس کے بعد بہت مؤکَّد کہ یہ زمانہ قربِ بلوغ و کمال اشتہا کا ہے۔ج

(فتاویٰ رضویہ،ج23،ص639،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن قریب البلوغ لے پالک بچی کے متعلق ہونے والے سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”دختر اب کہ بالغہ ہوئی یا قریب بلوغ پہنچی جب تک شادی نہ ہو ضرور اس کو باپ کے پاس رہنا چاہیے،یہاں تک کہ نو برس کی عمر کے بعد سگی ماں سے لڑکی لے لی جائے گی اور باپ کے پاس رہے گی نہ کہ اجنبی جس کے پاس رہنا کسی طرح جائز ہی نہیں،بیٹی کے پالنے سے بیٹی نہیں ہو جاتی۔ملخصا۔“

(فتاویٰ رضویہ،ج13،ص639،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم