Behen Ki Beti Ko Doodh Pilane Ke Baad Us Se Apne Bete Ka Nikah Karna

بہن کی بیٹی کو دودھ پلانے کے بعد اس سے اپنے بیٹے کا نکاح کرنا

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-989

تاریخ اجراء: 28ذوالحجۃالحرام1444 ھ/17جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دو بہنیں ہیں ایک کا بیٹا پیدا ہوا اور دوسری کی بیٹی جس کا بیٹا تھا اس نے اپنی بہن کی بیٹی یعنی  بھانجی کو ایک بار دودھ پلایا ۔ تو کیا وہ لڑکی اپنے  خالہ زاد بھائی جس کے ساتھ دودھ پیا تھا اس کے علاوہ دوسرے خالہ زادسے نکاح کر سکتی ہے؟  بعض  لوگوں کا کہنا ہےکہ رضاعت کے لیے کم از کم پانچ بار دودھ پینا لازم ہے ۔اس کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر ایک بہن  نے مدت رضاعت میں (یعنی ڈھائی سال کی عمر کے دوران) اپنی بہن کی بیٹی(یعنی بھانجی) کو دودھ پلادیا تو اس صورت  میں دودھ پینے کی وجہ سےوہ لڑکی اس دودھ پلانے والی عورت کی رضاعی بیٹی بن چکی ہےاوراس رشتۂ رضاعت کے سبب  اس بچی پردو دھ پلانے والی عورت کے تمام بیٹے خواہ وہ پہلے پیدا ہوئے ہوں یا بعد میں یاجنہوں نے ساتھ میں دودھ پیا ہو ،وہ تمام بیٹے اس دودھ پینے والی بچی کے محارم ہوگئے یعنی رضاعی بھائی بن گئے ۔رضاعی بہن ،بھائی کا آپس میں نکاح حرام ہے  ۔کیونکہ  جس طرح نسبی رشتےوالی عورتیں مثلاً اپنی بہن پھوپھی خالہ وغیرہ ،کسی مرد پر حرام ہوتی ہیں،اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی اس نوعیت کے رشتے والی عورتیں حرام ہوجاتی ہیں  اورقرآن وحدیث میں ایسا رضاعی رشتہ رکھنے والے مرو وعورت  کے مابین نکاح کو حرام قرار دیا ہے ۔

   رسول کریم نبی رؤوف رحیم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ  وسلم ارشاد فرماتے ہیں''الرضاعۃ تحرم ما تحرم الولادۃ۔'' یعنی جو عورتیں نسبی رشتے کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں اس نوعیت کی عورتیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہیں۔ (بخاری شریف ،جلد 2صفحہ764 ،مطبوعہ کراچی)

   تنویر الابصار ودرمختار میں”(ولا حل بین رضیعی امرأۃ )لکونھما أخوین وان اختلف الزمن۔یعنی کسی عورت سے بچے بچی نے دودھ پیا تو ان دونوں کے مابین نکاح حلال نہیں اس لئے کہ  یہ یہ دونوں بہن بھائی بن گئے اگرچہ ان دونوں کے دودھ پینے کا زمانہ مختلف ہو۔(درمختار معہ ردا لمحتار،جلد4صفحہ398،مطبوعہ: کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا،وہ اس بچہ کی ماں ہوجائے گی اور اس کا شوہر (جس کا یہ دودھ ہے یعنی اس کی وطی سے بچہ پیدا ہوا ،جس سے عورت کو دودھ اترا)اس دودھ پینے والے بچہ کاباپ ہوجائے گا اور اس عورت کی تمام اولادیں اس کے بھائی بہن خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے ،اس کے دودھ پینے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی یا ساتھ کی“(بھارِ شریعت ، جلد 1 ، حصہ 7 ، صفحہ 38 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک مدت ِرضاعت میں ایک بار دودھ پلانے سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، پانچ بار دودھ پلانا  ضروری نہیں ہے۔

   فتاویٰ ہندیہ میں ہے:”قلیل الرضاع وکثیرہ اذا حصل فی مدۃ الرضاع تعلق بہ التحریم کذا فی الھدایۃ قال فی الینابیع :والقلیل مفسر بما یعلم انہ وصل الی الجوف کذا فی السراج الوھاج“یعنی دودھ پلانا قلیل ہو یا کثیر جب مدتِ رضاعت میں حاصل ہو،  تو تحریم اس کے متعلق ہوجائے گی ایسا ہی ہدایہ میں ہے ۔ ینابیع میں فرمایا:اور قلیل کی تفسیر اس مقدار کے ساتھ کی گئی ہے جس کے متعلق معلوم ہے کہ جوف تک پہنچ گیا ہے ایسا ہی سراج وہاج میں ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 376، مطبوعہ:بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم