مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری
فتوی نمبر:WAT-1768
تاریخ اجراء: 03ذوالحجۃالحرام1444 ھ/22جون2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ذو الحجہ کے نو دن کے روزے سنت ہیں یا
نفل؟سنت ہیں تو مؤكده ہیں یاغير مؤکدہ؟اگر سنت ہیں تو مشکو ۃ المصابیح میں
نفلی روزوں کے بیان میں کیوں نقل کیا گیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث مبارکہ
سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے
رکھا کرتے تھے ،لہذا یہ روزے سنت ہیں،مگرسنتِ مستحبہ ہیں،سنتِ
مؤکدہ نہیں ۔ اور سنتِ مستحبہ
بھی ایک طرح سے نفل
ہوتا ہے کیونکہ اس میں اور
نفل میں حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی ان میں سے ہر ایک
کو بجالانے سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور ترک کرنے سے بندہ گنہگاریا اساءت کا
مرتکب نہیں ہوتا۔لہذاجب
ان روزوں کا حکم بھی نفل روزوں والا
ہی تھا تواس وجہ سے کتبِ احادیث میں اِنہیں نفل روزوں کے
بیان میں نقل کیا گیا
۔
سنن
نسائی شریف کی حدیث مبارکہ ہے:’’ أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان يصوم تسعا من ذي الحجة ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم ذو
الحجہ کے (ابتدائی )نو دن کے روزے رکھا کرتے تھے۔(سنن نسائی،کتاب الصیام،صفحہ609،رقم الحدیث:2417،مؤسسۃ الرسالۃ،
بیروت)
ذو
الحجہ کے ابتدائی نو دن کے روزے سنت ہیں،جیسا کہ حضرت علامہ علی قاری رحمۃ
اللہ علیہ ، مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں:’’أن صوم تسعة أيام من أول ذي الحجة سنة‘‘ترجمہ:ذو الحجہ کے (ابتدائی )نو دن کے
روزے سنت ہیں۔(مرقاۃ
المفاتیح،جلد4،باب صیام التطوع،صفحہ471،مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی
ہندیہ میں ہے:’’ویستحب
صوم تسعۃ ایام من اول ذی
الحجۃ کذا فی السراج الوھاج ‘‘ ترجمہ :ذو الحجہ کے ابتدائی نو دن کے روزے مستحب
ہیں اسی طرح السراج الوھاج میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،جلد1،کتاب الصوم، صفحہ222،دار الکتب
العلمیہ بیروت)
سنتِ
مستحبہ ایک طرح سے نفل ہی ہے
کہ ان کے مابین حکم کے
لحاظ سے کوئی فرق نہیں ،جیسا
کہ رد المحتار میں ہے:’’ السنۃ
نوعان سنۃ الھدی وترکھا یوجب اساءۃ وکراھۃ
کالجماعۃ و الاذان والاقامۃ ونحوھا وسنۃ الزوائد وترکھا
لایوجب ذلک کسیر النبی صلی ﷲ تعالٰی
علیہ وسلم فی لباسہ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ
ولایسیئ تارکہ ... فلافرق بین النفل و سنن الزوائد من حیث
الحکم لانہ لایکرہ ترک کل منھما ‘‘ترجمہ:
سنت کی دواقسام ہیں، سنت ہدٰی، اس کے ترک سے اسائت وکراہت
لازم آتی ہے مثلاً جماعت اذان اور اقامت وغیرہ، اورسنت زوائدتو اس کے ترک سے اسائت وکراہت لازم نہیں آتی
مثلاً آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کالباس پہننا۔اور
نفل ومندوب کامعاملہ بھی یہی ہے اس کے کرنے والے کوثواب ہوگا
مگر تارک گنہگار نہیں۔۔۔لہذا نفل اور سنن زوائد میں
حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ کسی کابھی ترک
مکروہ نہیں۔ (رد المحتار
علی الدر المختار،جلد1،کتاب الطھارۃ،مطلب فی السنۃ
وتعریفھا، صفحہ230 ،دار المعرفہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟