12 Rabi ul Awwal Eid Hai Tu Is Din Ka Roza Kaisa ?

بارہ ربیع الاول کا روزہ رکھنا کیسا ہے ؟

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2028

تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1445 ھ/26ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ربیع الاول کا دن تو ہم عید کا دن مناتے ہیں، تو اس دن کا روزہ کیسا۔مطلب عید کے دن  تو روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   روزہ رکھنے کی ممانعت کااختیار،اللہ تعالیٰ اوراُس کے حبیب ﷺکوہے۔وہ جس دن سے منع کر دیں، ممنوع ہے اورجس دن کی اجازت دیں یا  شریعت خاموش ہوتواُس دن جائز ہے۔

   کسی دن کا عید ہونا،لیکن اس کے باوجود اُس میں روزہ رکھنے کا درست وثابت ہونا کتبِ حدیث میں واضح ہے۔مثلا:

   (1)جمعہ کے دن کو بڑی وضاحت سے عید کا دن فرمایا گیا، لیکن پورے اثاثہِ حدیث میں اس دن کے بوجہ عید ہونے کے روزہ کی ممانعت کہیں وارِد نہ ہوئی۔

   سنن ابن ماجہ میں ہے” عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن هذا يوم عيد، جعله الله للمسلمين، فمن جاء إلى الجمعة فليغتسل، وإن كان طيب فليمس منه، وعليكم بالسواك“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے (جمعہ کے دن کے متعلق)فرمایا:اس دن کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے عید بنایا ،پس جو جمعہ کے لئے آئے وہ غسل کرے ،اس کے پاس خوشبو ہو تو اسے چھوئے اور تم مسواک کو لازم پکڑو۔(سنن ابن ماجہ،حدیث 1098،ج 1،ص 349،دار إحياء الكتب العربية)

   (2) یونہی یومِ عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کے متعلق حدیث بخاری بڑی وضاحت سے موجود ہے، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہودیوں کو دیے ہوئے جواب کی تشریح میں علماء ومحدثین نے لکھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یومِ عرفہ کو عید تسلیم کیا، لیکن صحابہ کرام  اور علمائے امت سے واضح طور پرذوالحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنا ثابت ہے۔

   صحیح بخاری میں ہے” عن عمر بن الخطاب، أن رجلا، من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين، آية في كتابكم تقرءونها، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا. قال: أي آية؟ قال: {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا} [المائدة: 3] قال عمر: «قد عرفنا ذلك اليوم، والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم، وهو قائم بعرفة يوم جمعة“ ترجمہ :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے  (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ )سے  کہا، اے امیرالمومنین ! آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،جسے آپ پڑھتے ہیں،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہ آیت ’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ‘‘ پڑھی۔ آپ  رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا ’’ ہم  اس دن کو جانتے ہیں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتے ہیں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔(صحیح البخاری،حدیث 45،ج 1،ص 18،دار طوق النجاۃ)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ذکر کرتے ہیں:” قوله: (قد عرفنا ذلك اليوم) ۔۔۔قال النووي: معناه: أنا ما تركنا تعظيم ذلك اليوم والمكان، أما المكان فهو عرفات، وهو معظم الحج الذي هو أحد أركان الإسلام، وأما الزمان فهو يوم الجمعة ويوم عرفة۔۔۔فقد اتخذنا ذلك اليوم عيدا، وعظمنا مكانه أيضا، وهذا كان في حجة الوداع“ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان(ہم  اس دن کو جانتے ہیں جس میں یہ نازل ہوئی تھی)امام نووی نے فرمایا:اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اس دن و جگہ کی تعظیم کو ترک نہیں کیا ،بہرحال مکان تو وہ عرفات تھا ،عرفات حج کی عظیم جگہ ہے اورحج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اور بہرحال زمان تو وہ جمعہ و عرفہ کا دن تھا ،ہم نے اس دن کو عید بنایا اور ہم نے اس جگہ کی بھی تعظیم کی۔یہ حجۃ الوداع کے سال کا واقعہ تھا۔(عمدۃ القاری،ج 1،ص 264،دار إحياء التراث العربي - بيروت)

   پس یہ سمجھنا کہ جس دن پر عید کا اِطلاق آ گیا، اُس میں روزہ رکھنا ممنوع ہو گیا،یہ اسلامی تعلیمات وہدایات کے خلاف ہے۔

   لہذابالکل اِسی طرح عیدمیلادالنبی بلاشبہ عیدہے،مگراس دن روزہ رکھنے کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہیں،بلکہ حدیث مبارک میں تو یومِ ولادتِ حبیبِ خداﷺ  کو روزہ رکھنے کی ترغیب ہے،جیسا کہ خود نبی اکرم ﷺ پیر شریف کا روزہ رکھتے تھے۔

   صحیح مسلم میں ہے” عن أبي قتادة الأنصاري رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن ۔۔۔صوم يوم الاثنين؟ قال: «ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت - أو أنزل علي فيه –“ترجمہ:حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سوموار کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مبعوث کیا گیا یا اسی دن مجھ پر(قرآن) نازل کیا گیا۔(صحیح مسلم،حدیث 197،ج 2،ص 819،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   الغرض!عید خدا کی میزبانی کا دن ہے اور وه  میزبان ”حاکِمِ مطلق“ ہے، وہ جس عید میں روزہ رکھنے سے منع کردے، ممنوع ہے اور جب اجازت دے، تو اجازت ہے اور کب اجازت اور کب ممانعت ہے، یہ ہمیں نبی اکرم ﷺ نے بتا دیا ہے، ہم ازخود کسی دن روزہ رکھنے کے حرام ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم