سحری میں اذان ہونے تک کھانا پینا

مجیب:      ابو حمزہ محمد حسان عطاری زید مجدہ

فتوی نمبر: Web:24

تاریخ اجراء: 23ربیع الثانی 1442 ھ/09دسمبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سےرمضان میں سحری میں اذان کے بعد تک کھاتا پیتا رہا تو کیا اس دن کا روزہ ہوجائے   گا یا نہیں ؟اس روزے کی قضا لازم ہوگی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صبح صادق ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے ، اور اذان،  فجر کا وقت شروع ہونے پر،نماز فجر کے لیے دی جاتی ہے ، لہذا جو شخص اذان کے بعد تک کھاتا پیتا رہا تو اس کا روزہ نہ ہوا ،اس شخص پر اس روزے کی قضا لازم ہے۔

      تنویر الابصار میں ہے:”تسحر یظن الیوم لیلا والفجر طالع قضی فقط“ترجمہ: اگر رات  کا گمان کرتے ہوئے سحری کرلی جبکہ فجر طلوع ہوچکی تھی  تو فقط قضا لازم ہے۔"                                      

(در المختار مع رد المحتارجلد3صفحہ 436مطبوعہ بیروت)

     فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا :" بریلی بلگرام کے قریب قریب عرض کے شہروں میں سحری چار بجے تک کھانی چاہئے، ساڑھے چار بجے کب کی صبح ہوچکتی ہے، اس وقت کچھ کھانے پینے کے معنی ہی نہ تھے، وہ روزہ یقینانہ ہوا اُس کی قضا فرض ہے۔"                                      

(فتاوی رضویہ   جلد10صفحہ 517مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

     ایک اور مقام پہ فرمایا: "اس رمضان شریف میں پانچ بجے تک کسی طرح وقت نہ تھا جبکہ پانچ بجے تک سحری کھائی تور وزہ بلاشبہ ہواہی نہیں کہ توڑنا صادق آئے، قضا لازم ہے اور کفارہ نہیں۔"

 (فتاوی رضویہ   جلد10صفحہ 519مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

     بہار شریعت میں ہے: "یہ گمان کر کے کہ رات ہے، سحری کھالی یا رات ہونے میں شک تھا اور سحری کھا لی حالانکہ صبح ہو چکی تھی، ان سب صورتوں میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔"

 (بہار شریعت    جلد1 حصہ 5صفحہ 989مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم