روزی کمانے کی وجہ سے رمضان کا فرض روزہ چھوڑنا؟

مجیب:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:21جمادی الثانی 1436 ھ/11اپریل2015ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عمرو ایک صحت مند آدمی ہے، وہ رمضانُ المبارک کے روزے نہیں رکھتا اور کہتا ہے کہ میرا عذر ہے اور عذر یہ ہے کہ میں روزہ رکھ کر مزدوری نہیں کر سکتا،وہ شخص سرِعام کھاتا پیتا ہے، اُسے منع کیا جائے تو کہتا ہے کہ میں جانوں اورمیرا رب جانے،بخشنا تو اللہ نے ہے۔شریعت میں ایسے بندے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر صورتِ حال واقعی ایسی ہے،تو عمرو فاسق و فاجر اور مرتکبِ حرام ہے، کیونکہ روزہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،بلاوجہِ شرعی اس کو ترک کرنا، ناجائز وگناہ ہے اوریہ کوئی عذر نہیں کہ میں نے روزی کمانی ہوتی ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ روزہ رکھ کر کام کیا جائے اوراگر کام کی وجہ سے روزہ رکھنے میں دشواری آتی ہے، تو کام کی مقدار کم کرلینی چاہئے، نہ کہ روزہ چھوڑدیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوۡنَ﴾ترجمۂ  کنز الایمان :’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔‘‘

 (پارہ2،سورۃ البقرہ ،آیت183)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:”بینا انا نائم  اذ  اتانی رجلان،  فأخذا بضبعی، فأتیا بی جبلاً وعراً، فقالا: اصعد، فقلتُ:انّی لا اطیقہ، فقالا: انّا سنسھلہ لک، فصعدتُ حتّی اذا کنتُ فی سواء الجبل اذا بأصوات شدیدۃ، قلتُ: ما ھذہ الأصوات؟ قالوا: ھذا عواء اھل النار، ثمّ انطلق بی فاذا انا بقوم معلّقین بعراقیبھم، مشقّقۃ أشداقھم، تسیل أشداقھم دماً قال:قلتُ: من ھؤلاء؟ قال: ھؤلاء الذین یفطرون قبل تحلّۃ صومھم“ یعنی میں سو رہا تھا ۔ اچانک میرے پا س دو شخص آئے، انہوں نے مجھے میرے بازو سے تھاما اور ایک دشوار گزار پہاڑ کے پاس لے آئے اور بولے: اوپر تشریف لے چلیں ۔ میں نے کہا:میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔وہ بولے: ہم اسے آپ کے لیے آسان کر دیں گے۔ لہٰذا میں اوپر چڑھنے لگا یہاں تک کہ جب میں پہاڑکے برابرہوا تو بہت ہولناک آوازیں آنے لگیں ، میں نے پوچھا:یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ انہوں نےجواب دیا :یہ جہنمیوں کے چیخنے کی آوازیں ہیں ۔ پھر وہ مجھے لے کر ایسے لوگوں کے پاس آئے جو اپنی کونچوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے، ان کے جبڑوں کو چیرا ہواتھا اور ان سے خون بہہ رہا تھا، میں نے پوچھا:یہ لوگ کون ہیں ؟ جواب ملا :یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ افطارکرنے کاجائز وقت ہونے سے پہلے ہی روزہ افطار کر لیتے تھے۔

(صحیح ابن خزیمة ،کتاب الصیام ،باب ذکر تعلیق المفطرین الخ،حدیث 1986،جلد3،صفحہ237، بیروت )

    امامِ اہلسنّت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :”چوں پیش از وقتِ افطار را ایں عذاب ست اصلاًروزہ نہ داشتن را خود قیاس کن کہ چنداں باشد۔وَالْعِیَاذُ بِاﷲ‘‘ یعنی جب قبل از وقت روزہ افطار کرنے پر یہ عذاب ہے توخود سوچئے بالکل روزہ نہ رکھنے پر کتنا عذاب ہوگا۔وَالْعِیَاذُ بِاﷲ‘‘

        (فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ341،رضا فاونڈیشن،لاھور)

    درمختار میں ہے:” لا یجوز أن یعمل عملاً یصل بہ الی الضعف“ یعنی روزہ دار کے لیے ایسا کوئی کام کرنا، جائز نہیں جس کی وجہ سے اسے کمزوری ہو۔                  

(درمختار مع ردالمحتار ،کتاب الصوم ،باب مایفسد الصوم وما لا یفسدہ،جلد3،صفحہ460،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ رضویہ میں ہے : ’’اگر دھوپ میں کام کرنے کے ساتھ روزہ ہوسکے اورآدمی مقیم ہو مسافر نہ ہو، تو روزہ فرض ہے اور اگر نہ ہوسکے روزہ رکھنے سے بیمار پڑ جائے، ضررِ قوی پہنچے، تو مقیم غیرِ مسافر کو ایسا کام کرنا حرام ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ 228،رضا فاونڈیشن ،لاھور)

    اور رمضان کے دنوں میں عمرو کاسرِعام کھانا پینا ماہِ رمضان کی توہین ہے،اگر سلطنت کی طرف سے اسلامی احکام جاری ہوتے تو ایسے آدمی کے خلاف سخت کاروائی کرتی۔

    عمرو کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا ،تو اس حوالے سے عرض ہے کہ جہاںاللہ تعالیٰ غَفُوْرُالرَّحِیْم ہے ، وہیں جبّار و قہّار بھی ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید بھی رکھیں اور اس کی پکڑ سےبھی  ڈریں اور اس کے ساتھ اس کے احکام پر بھی عمل کریں۔لہٰذا عمرو اپنے اس فعل سے توبہ کرے اور جتنے روزے چھوٹے ہیں، ان کی قضا کرے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم