قضا روزے کس طرح رکھے جائیں؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ  رمضان المبارک 1442ھ مئی 2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ اس وقت والد صاحب کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے لیکن فی الحال روزہ رکھنے کی صلاحیت ہے اور روزہ رکھ بھی رہے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جان بوجھ کر بہت سے روزے قضا کر دئیے ہیں ، اب معلوم یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ ان قضا روزوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہے؟ قضا روزے ہی رکھنا ضروری ہیں یا ان کی جگہ فدیہ بھی دے سکتے ہیں؟ اگر فدیہ دینے کی اجازت ہے تو ایک روزے کا کتنا فدیہ ہے؟

سائل : بلال (کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جتنے روزے جان بوجھ کر ترک کئے ہیں ان روزوں کو قضا کرنا ان پر فرض ہے لگاتار ضروری نہیں چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتے ہیں یونہی سردیوں میں رکھنا آسان ہوتے ہیں اس موسم میں رکھ لئے جائیں الغرض جتنا جلدی ہوسکے روزے قضا ہی کرنے ہونگے ، فدیہ یا کفارہ دینا کافی نہیں ہے۔ ساتھ میں روزہ چھوڑنے کے گناہ سے توبہ کرنا بھی لازم ہے۔ یاد رہے کہ فدیے کا حکم صرف شیخِ فانی کے لئے ہے ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ شیخِ فانی سے مراد وہ شخص ہے جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ اس میں حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو ، نہ سردی میں ، نہ گرمی میں ، نہ لگاتار اور نہ متفرق طور پر ، اور آئندہ زمانے میں بھی ضعف بڑھنے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہ ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم