روزہ رکھنے کی منت مانی اور بیمار ہو گئے تو روزے کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11207

تاریخ اجراء:11جمادی الاولیٰ1442ھ/27دسمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ ہندہ  نے یوں منت مانی کہ”میرا  بیٹا امتحان میں پاس ہوگیا، تو میں ایک روزہ رکھوں  گی۔ “اب اس  کا بیٹا تو  امتحان میں پاس ہوگیا، لیکن ہندہ اتنی بیمار ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی، ڈرِپ کے ذریعہ اسے کھانا پانی دیا جاتا ہے، بظاہر ہندہ کے صحت یاب ہونے کی بھی کوئی امید نہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اب اس صورت میں ہندہ  کے لیے منت کے روزے کا کیا حکم ہے؟ کیا ہندہ کی طرف سے اس روزے کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے ؟رہنمائی  فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں یہ منت درست ہے اور اس منت  کی وجہ سے ہندہ پر ایک روزہ رکھنا ضروری ہو گیاہے۔ نیز پوچھی گئی صورت میں ہندہ کی کیفیت کے پیش نظر کافی تفصیل ہے،جو مختلف احکامات کے ساتھ چند پیراگراف میں درج ذیل ہے:

اولاً تو یہ یاد رہے کہ روزے کے بجائے اس کا  فدیہ ادا کرنے کا حکم فقط شیخِ فانی کے لیے ہے، مطلق مریض کے لیے یہ حکم نہیں۔ شیخِ فانی وہ شخص ہوتا ہے  جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ حقیقتاً اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہ ہو، نہ سردی میں نہ گرمی میں، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو۔ ایسے شیخِ فانی  کے لیے شرعاً حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ روزے کا فدیہ ادا کرے ،خواہ وہ روزہ رمضان کا ہو یا قضا کا ہو یا منت کا ہو، بہر صورت اس کے لیےحکم یہ ہے کہ وہ  اس روزے کا فدیہ ادا کرے۔ البتہ  اگر فدیہ دینے کے بعد شیخِ فانی میں اتنی طاقت آجائے کہ وہ روزہ رکھ سکے ،تو اس صورت میں وہ دیا گیا فدیہ نفل شمار ہوگا اور روزے کی قضانئے سرے سے اس کے  ذمہ لازم آئے گی۔

اس پوری تفصیل سے واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں اگر  ہندہ شیخِ فانیہ ہے، تو پھر اس کی طرف سے اس منت کے  روزے کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہےاور اگر ہندہ شیخِ فانیہ نہیں،تو اس صورت میں اس کی طرف سےاس منت والےروزے کا فدیہ ادا نہیں کیا جاسکتا، بلکہ وہ بیماری جانے کا انتظار کرے اور صحت یاب ہونے پر اس روزے کی ادائیگی کرے۔

    اگر صورتِ مسئولہ میں ہندہ شیخ فانیہ کی حد تک بھی نہ پہنچے اور اسے کفارہ لازم ہونے  سے لے کر اب تک بیماری وغیرہ معتبر عذر کی بنا پر منت کا وہ روزہ رکھنے کا موقع بھی نہ ملے، تو اس صورت میں ہندہ پر فدیہ کی وصیت کرکے جانا واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کرکے جانا فقط اسی وقت واجب ہوتا ہے جب معذور کو روزہ رکھنے کا موقع ملے، لیکن پھر بھی وہ روزہ نہ رکھے۔ البتہ اگروصیت واجب نہ ہونے والی صورت پائی جاتی ہے اور ہندہ پھر بھی وصیت کر جاتی ہے، تو یہ وصیت درست ہے ،جو ہندہ کے تہائی مال میں جاری ہوگی۔

    اگر صورتِ مسئولہ میں ہندہ کو  بیماری وغیرہ عذر ختم ہونے کے سبب منت  کا یہ روزہ رکھنے کا موقع مل جاتا ہے،لیکن پھر بھی وہ روزہ نہ رکھے پھر وہ دوبارہ بیمار ہو کر بستر مرگ میں جا پہنچے، لیکن شیخ فانیہ بھی نہ ہو، تو اب ہندہ پر فدیہ کی وصیت کرکے جانا  واجب ہوگا،  ہاں اگر ہندہ نے وصیت نہ کی مگر ورثاء نے اپنی طرف سے ہندہ کے اس روزے کا فدیہ ادا کردیا ،توان کا ایسا کرنا  بھی جائز اور ایک عمدہ عمل ہے، اگرچہ ورثاء پر ایسا کرنا واجب نہ تھا۔

شرط پائی جانے کی صورت میں منت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”فان علقہ بشرط  يريدہ كان قدم غائبي  او  شفى مريضي یوفی وجوباً ان وجد الشرط“یعنی اگر کوئی شخص نذر کو کسی ایسی شرط پر معلق کرتا ہے، جس کا ہونا اسے  پسند ہو، جیساکہ وہ کہے : اگراللہ تعالیٰ میرے غائب کو واپس لوٹا دے یا اللہ تعالیٰ میرے مریض کو شفا دے دے، تو اب شرط  پائے جانے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ہی اس پر واجب ہوگا۔

(ملخصاً از رد المحتار  مع الدر المختار،کتاب الایمان، جلد 05، صفحہ 542، 543، مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اوس کے ہونے کی خواہش ہے،مثلاً: اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں،تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ،ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا،تو اتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے ،یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض میں کفارہ دیدے۔“

 (بھارشریعت ، جلد 02،صفحہ 314، مکتبۃ   المدینہ، کراچی)

شیخِ فانی کسے کہتے ہیں؟ اس کے متعلق شرح النقایہ  میں ہے:”(و شيخ فان)سمی بہ لقربہ الی الفناء او لانہ فنیت قوتہ(عجز عن الصوم افطر)“ یعنی بوڑھا شخص جو  روزہ رکھنے سے عاجز ہو، وہ روزہ نہیں رکھے گا، اسے شیخِ فانی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ فنا کے بہت قریب ہوتا ہے یا اس لیے کہ اس کی قوت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔

          (فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ، کتاب الصوم، جلد 01، صفحہ 582 ، مطبوعہ کراچی)

    شیخِ فانی کو روزے کا فدیہ دینے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي )وجوبا لو موسراً وإلا فيستغفر اللہ، هذا اذا کان الصوم اصلاً بنفسه وخوطب بادائہ“ترجمہ:شیخ فانی جو روزہ رکھنے سے بالکل عاجز آجائے اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور اس روزے کے بدلے فدیہ دینا واجب ہے ،اگر وہ خوشحال ہو، ورنہ وہ استغفار کرے، یہ حکم اس روزے  کے بارے میں ہے جو بذاتِ خود اس پر واجب ہو(یعنی کسی چیز کے بدل میں نہ ہو،جیسے قسم اور قتل کے روزے وغیرہ کہ ان میں اصل فدیہ اور دیت ہے ،روزے ان کا  بدل ہیں) اور اس  کی ادئیگی کا اسے حکم دیا ہو۔

    درِ مختار کی  عبارت (اصلاً بنفسه)کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”كرمضان وقضائه والنذر كما مر فيمن نذر صوم الابد، وكذا لو نذر صوما معينا فلم يصم حتى صار فانيا جازت له الفدية، بحر“ترجمہ:جیسے رمضان، قضائے رمضان اور منت کے روزے جیساکہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی منت ماننے والے کا مسئلہ ماقبل گزرا ہے، اسی طرح اگر کسی نے معین دن کے روزے کی منت مانی پھر اس نے روزہ نہ رکھا یہاں تک کہ وہ شیخ فانی ہوگیا، تو اب اسے روزے کا فدیہ دینا جائز ہے، بحر۔

(ملخصاً از رد المحتار  مع الدر المختار،کتاب الصوم، فصل فی العوارض، جلد 03، صفحہ 472 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ رضویہ میں ہے:”بعض جاہلوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے، جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو، ایسا ہر گز نہیں، فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا ہے، جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقۃً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو، نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضُعف بڑھے گا اُس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 521، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    امام اہلسنت علیہ الرحمۃ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے ،انہیں بھی کفار ہ دینے کی اجازت نہیں، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبلِ شفاموت آجائے ،تواس وقت کفارہ کی وصیت کردیں، غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق،اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا، تو بڑھا پا تو جانے کی چیز نہیں، ایسے شخص کو کفارہ کاحکم ہے۔‘‘

                 (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 547، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    انتقال کے بعد میت کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کے حوالے سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”ولو فات صوم رمضان بعذر المرض أو السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه لكنه إن أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته ، وإن لم تجب عليه ويطعم عنه من ثلث ماله فإن برئ المريض أو قدم المسافر ، وأدرك من الوقت بقدر ما فاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك فإن     لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصي بالفدية كذا في البدائع ويطعم عنه وليه لكل يوم مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير كذا في الهداية۔ فإن لم يوص وتبرع عنه الورثة جاز ، ولا يلزمهم من غير إيصاء كذا في فتاوى قاضي خان“یعنی جس کا رمضان کا روزہ مرض یا سفر کے عذر کی بنا پر قضا ہوا  اور اس کا وہ مرض اور سفر جاری  رہا، یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوا، تو اس روزے کی قضاء لازم نہیں،لیکن اگر اس نے اس روزے کے بدلے میں کھانا کھلانے کی وصیت کی تھی ،تو اس کی وصیت درست ہوگی،  اگرچہ اس پر وصیت کرنا واجب نہ تھا اوراس کے  تہائی مال میں سے فقراء کو کھانا کھلایا جائے گا۔ ہاں اگر مریض شفا یاب ہوگیا تھا  یا پھر مسافر سفر سے لوٹ آیا تھا اور اس نے روزے کی قضاء کرنے کے  وقت کو بھی پالیا تھا ،تو اس صورت میں ان تمام چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء اس کے ذمہ لازم ہوگی، پس اگر اس نے روزے نہ رکھے یہاں تک کہ اسے مرض الموت نے آلیا، تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کرے،جیساکہ بدائع میں ہے اور اس کا ولی ہر دن ایک مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ کرے،جیساکہ ہدایہ میں  ہے،اور اگر اس نے وصیت نہ کی،لیکن  ورثا تبرعاً اس کی طرف سے فدیہ دے دیں، تب بھی جائز ہے، اگر چہ بغیر وصیت کے ورثاء پر یہ فدیہ دینا  لازم نہیں، جیساکہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے۔

 (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم،جلد 01، صفحہ 207، مطبوعہ پشاور)

    روزے کا موقع نہ ملے تو وصیت کرکے جانا واجب نہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(فإن ماتوا فيه)أي في ذلك العذر(فلا تجب)عليهم(الوصية بالفدية)لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر(ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت)الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر“یعنی وہ افراد کہ جنہیں عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ،یہ اگر اپنے اسی عذر میں فوت ہوجائیں، تو دوسرے ایام نہ پائے جانے کی وجہ سے  ان پر روزے کے فدیہ کی وصیت کرنا واجب نہیں۔ ہاں اگر ان کا انتقال عذر زائل ہونے کے بعد ہوا ہو،تو اب ان پر اتنے دنوں کے روزوں کی وصیت کرکے جانا واجب ہے جتنے دن انہیں روزہ رکھنے کا موقع ملا مگر روزہ نہ رکھا۔

    اس عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:”قوله:(فإن ماتوا الخ)ظاهر في رجوعه إلى جميع ما تقدم حتى الحامل والمرضع ۔فإن كل من أفطر بعذر ومات قبل زواله لا يلزمه شئ۔قوله: (لعدم إدراكهم الخ) أي فلم يلزمهم القضاء، ووجوب الوصية فرع لزوم القضاء“یعنی ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد تمام وہ افراد ہیں جن کا ذکر ماقبل ہوچکا ،یہاں تک کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت بھی اس حکم میں داخل ہے۔پس ہر وہ شخص جس نے کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑا اور اس  عذر کے زائل ہونے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا تو اب اس پر کوئی شے لازم نہیں۔ان کے دوسرے ایام کو نہ پانے کی وجہ سے ان پر ان عذر کے دنوں کی قضا لازم نہیں اور وصیت کا وجوب قضا لازم ہونے ہی کی فرع ہے(لہذا وصیت بھی واجب نہیں ہوگی)۔“

(ملتقطاً و ملخصاً از رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض، جلد 03، صفحہ 466 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    بہارِ شریعت میں ہے:”اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے، تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں ،پھر بھی وصیّت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے، مگر نہ رکھے تو وصیّت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجہ اَولیٰ وصیّت کرنا واجب ہے اور وصیّت نہ کی، بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے، مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔“

(بھارشریعت ،جلد 01،صفحہ1005، مکتبۃ   المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم