50 Saal Se Ziyada Umar Ho Tu Pichle Saalon Ke Qaza Rozon Ka Hukum

50 سال سے زیادہ عمر ہو تو پچھلے سالوں کے قضا روزوں کا حکم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی  نمبر: 92

تاریخ  اجراء: 07رمضان المبارک4214ھ/20اپریل2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اس وقت والد صاحب کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے لیکن فی الحال روزہ رکھنے کی صلاحیت ہے اور روزہ رکھ بھی رہے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جان بوجھ کر بہت سے روزے قضا کر دیے ہیں،  اب معلوم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان قضا روزوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہے ؟ قضا روزے ہی رکھنا ضروری ہے یا ان کی جگہ فدیہ بھی دے سکتے ہیں؟اگر فدیہ دینے کی اجازت ہے تو ایک روزے کا کتنافدیہ ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جتنے روزے جان بوجھ کر ترک کیے ہیں ، ان روزوں کو قضا کرنا ان پر فرض ہے ۔ لگاتار ضروری نہیں ، چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتے ہیں ۔ یونہی سردیوں میں رکھنا آسان ہوتے ہیں ، اس موسم میں رکھ لیے جائیں ۔ الغرض جتنا جلدی ہوسکے روزے قضا ہی کرنے ہوں گے ، فدیہ یا کفارہ دینا کافی نہیں ہے۔ساتھ میں روزہ چھوڑنے کے گناہ سے توبہ کرنا بھی لازم ہے۔

   یاد رہے کہ فدیے کا حکم صرف شیخ فانی کے لیے ہے ، ہر ایک کے لیے نہیں ہے۔شیخ فانی سے مراد وہ شخص ہے ، جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ اس میں حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو۔ نہ سردی میں ،نہ گرمی میں، نہ لگاتار اور نہ متفرق طور پر اور آئندہ زمانے میں بھی ضعف بڑھنے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہ ہو۔

   سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : ”بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے ،جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو،ایسا ہرگز نہیں، فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا ہے جو بہ سببِ پیرانہ سالی ( یعنی بڑھاپے کی وجہ سے ) حقیقتاً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو، نہ آئندہ طاقت کی امید  کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ521رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں:”کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہوجیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ایسا ضعیف کردیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ547،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےصدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں : ”جتنے روزے فوت ہوگئے ان کی قضا رکھے کفارہ کی کچھ حاجت نہیں۔نہ فدیے کی ضرورت۔“اور اسی کے حاشیہ میں مذکور ہے کہ ”جتنے روزے ذمہ ہیں جب تک اس کو قوت ہو فرض ہے کہ ان کی قضا کرے ۔ قوت ہوتے ہوئے ان کا فدیہ ادا کرنا کافی نہ ہوگا۔“(فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ 396،مکتبہ رضویہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم