Bimar Ki taraf Se Roze Rakhna Kaisa ?

بیمارشخص  کی طرف سے رمضان کے روزے  رکھنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12095

تاریخ اجراء: 07رمضان المبارک1443 ھ/09اپریل 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی بیمار شخص کی طرف سے کوئی اور شخص  رمضان کے فرض روزے رکھ سکتا ہے ؟ شریعت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟؟ سائل: نزاکت

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ ایسا بیمار شخص کہ جسے روزے رکھنے سے ہلاک ہوجانے یا پھر شدید بیمار ہوجانے کا غالب گمان ہو، تو ایسے بیمار شخص کو فی الحال  رمضان کے روزے  چھوڑنے کی اجازت ہے، البتہ صحت یاب ہونے کے بعد اسے ان سب روزوں کی قضا کرنا ہوگی۔ ہاں! اگر اسے بیماری وغیرہ کسی شرعی عذر کے سبب ان روزوں کی قضا کا موقع ہی نہ ملے، یہاں تک کہ وہ شیخِ فانی کے حکم کو پہنچ جائے تو اب اسے ان روزوں کے بدلے میں فدیہ دینے کی اجازت ہوگی، جس کی تفصیل کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔

   البتہ جہاں تک پوچھے گئے سوال کا جواب ہے تو یہ یاد رہے کہ روزہ  خالص بدنی عبادت ہےاور خالص بدنی عبادت (خواہ وہ نماز ہو یا  روزہ یہ) کسی دوسرے کے کرنے سے ادا نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں اس بیمار شخص کی طرف سے کوئی اور شخص رمضان کے فرض روزے نہیں رکھ سکتا شریعت میں   اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، اس  دوسرے شخص کا یہ روزے رکھنا باطل و لغو ہے جس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں۔

   چنانچہ مشکوٰۃالمصابیح میں ہے:ان ابن عمركان يسال هل  يصوم  احدعن احداويصلي احدعن احد فقال لايصوم احد عن احد ولايصلي احدعن احدیعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاکہ کیا ایک شخص دوسرے کے بدلے میں روزہ رکھ سکتاہے یا نمازپڑھ سکتاہے ؟تو آپ نے ارشادفرمایا کوئی دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی نمازپڑھے۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصوم ، باب القضاء، ج01،ص180، مطبوعہ لاہور)

   اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :” حدیث کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں یا بعد موت کوئی شخص کسی کی طرف سے محض بدنی عبادتیں روزہ نماز وغیرہ نہیں ادا کرسکتا۔(مرآۃ المناجیح ، کتاب الصیام ، ج 03 ، ص 177 ، نعیمی کتب خانہ ، گجرات)

   روزے میں نیابت کے حوالے سے المبسوط للسرخسی میں ہے :الصوم عبادة لا تجري النيابة في ادائها في حالة الحياة فكذلك بعد الموت كالصلاة وهذا لان المعنى في العبادة كونه شاقا على بدنه ولا يحصل ذلك بأداء نائبهترجمہ: روزہ ایسی عبادت ہے جس کی نیابت زندگی میں اور موت کے بعد بھی جاری نہیں ہو سکتی ، جیساکہ نمازاوریہ اس لئے ہے کہ عبادت کا معنی  بدن پرمشقت ہونا ہے اورنائب کےاداکرنے سے یہ معنی حاصل نہیں ہوتا۔ (المبسوط للسرخسی،کتاب الصوم،ج03،ص161،دار الفكر،بيروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں :”اپنے بدلے دوسرے کو روزہ رکھوانا محض باطل وبے معنی ہے، بدنی عبادت ایک کے کئے دوسرے پر سے نہیں اُتر سکتی، نہ مرد کے بدلے مرد کے رکھے سے نہ عورت کے،واﷲتعالیٰ اعلم۔ “ (فتاوی رضویہ،ج10،ص520،رضافاؤنڈیشن، مطبوعہ لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم