Eid Se Pehle Fitrah Diya Aur Eid Wale Din Gandum Ka Rate Barh Gaya Tu Hukum

عید سے پہلے فطرہ دیا اور عید والے دن گندم کا ریٹ بڑھ گیا تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی ابو الحسن محمد ھاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-1597

تاریخ اجراء: 07 رمضان المبارک1445ھ/18 مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی   گندم کے ریٹ کا اعتبار کرتے ہوئے صدقہ فطر  کرنسی کی صورت میں عید سے پہلے ادا کردیتا ہے اور گندم کا ریٹ عید والے دن طلوع صبح صادق  سے قبل ہی بڑھ جاتا ہے تو کیا اس کا صدقہ فطر ادا ہو جائے گا  یا جتنی کمی ہوئی اس کو پورا کرنا ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صدقہ فطر اگر قیمت کی صورت میں ادا کیا جائے تو اس میں صدقہ فطر واجب ہونے کے وقت جو قیمت ہے اس کا اعتبار کیا جاتا ہے اور صدقہ فطر عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی واجب   ہوجاتا ہے  ، تو اس وقت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا ،لہٰذا جتنی مقدار میں کمی آئے اسے ادا کرنا ضروری ہے اور جو پہلے ادا کیا وہ بھی درست ہوگیا جبکہ صدقہ فطر کی بقیہ شرائط پائی جائیں۔

   محیط برہانی میں ہے:"یجوز تعجیلھا قبل یوم الفطر بیوم او یومین فی روایۃ الکرخی وعن ابی حنیفۃ لسنۃ او سنتین   " ترجمہ:امام کرخی رَحِمَہُ اللہُ کی روایت کے مطابق صدقۂ فطر ،عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا ، جائز ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ رَحِمَہُ اللہُ کے نزدیک ایک یا دو سال پہلے ادا کرنا ، جائز ہے۔(محیط برهانی،كتاب الصوم، ج2،ص 589،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے:" عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔……فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جبکہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا پھر ہوگیا تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔"(بھار شریعت،ج01،حصہ 5،ص935،939، مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)

   کفارہ وغیرہ سے متعلق در مختار میں ہے : "(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب وقالا: یوم الاداء "ترجمہ : زکوٰۃ ، عشر ، صدقہ فطر ، نذر کی ادائیگی میں اور اعتاق یعنی غلام آزاد کرنے والے کفارہ کے علاوہ ہر طرح  کے کفارے میں قیمت ادا کرنا ، جائز ہے اور قیمت ادا کرنے میں مذکورہ چیزیں  لازم ہونے کے دن کی قیمت کااعتبارہوگااور صاحبین کی رائے کے مطابق یوم ادا کی قیمت کا اعتبار ہوگا ۔( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الزکوٰۃ ، ج 3 ، ص 250 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   روزوں کے فدیوں سے متعلق سیدی اعلی حضرت رَحِمَہُ اللہُ فرماتے ہیں:"قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا جس دن ادا کررہے ہیں ،بلکہ روز وجوب کا مثلاً اُس دن نیم صاع گندم کی قیمت دو آنے تھی آج ایک آنہ ہے  تو ایک آنہ کافی نہ ہوگا۔ دو آنے دینا لازم ، اور ایک آنہ تھی اب دو آنے ہوگئی تو دو آنے ضرور نہیں ایک آنہ کافی۔"فی الدر المختار جاز دفع القیمہ فی زکوٰۃ وعشر وخراج وفطرۃ ونذروکفارۃ غیر العتاق وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب وقالایوم الاداء"(اس کا ترجمہ ماقبل عبارت میں گزرچکا۔) (فتاویٰ رضویہ ، ج 10 ، ص 531 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   ایک صدقہ فطر متعدد افراد کو اداکرنا جائز ہے ۔چنانچہ متن تنویر وشرح در میں ہے :"(وجاز دفع کل شخص فطرتہ الی )مسکین  او (مساکین علی ) ماعلیہ الاکثر……کتفریق الزکاۃ"صدقہ فطر ایک یا ایک سے زائد مساکین کو دینا جائز ہے اسی پر اکثر علماء ہیں …….جیسا کہ زکوۃ متفرق طور پر ادا کرنا جائز ہے ۔     (تنویر الابصار والدرالمختار،جلد3،صفحہ377،مطبوعہ کوئٹہ )

   صدقہ فطر ادائیگی   کے معاملے میں زکوۃ کی طرح ہے تو جس طرح  زکوۃ متفرق طور پر ادا کرنا ، جائز ہے ، لہٰذا صدقہ فطر بھی متفرق طور پر ادا کیا تو اداہوجائے گا۔چنانچہ بہار شریعت میں ہے :" مالک نصاب پیشتر سے چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتا ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا زکاۃ میں  دیتا رہے، ختم سال پر حساب کرے، اگر زکاۃ پوری ہوگئی فبہا اور کچھ کمی ہو تو اب فوراً دیدے، تاخیر جائزنہیں  کہ نہ اُس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے کُل فوراً ادا کر دے اور زیادہ دے دیا ہے تو سال آئندہ میں  مُجرا (مائنس )کر دے۔ "(بھار شریعت، جلد01، حصہ 5،صفحہ891، مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)

   متن تنویر وشرح در میں ہے :" صدقۃ الفطر کالزکوٰۃ فی المصارف وفی کل حال" ترجمہ: صدقہ فطر مصارف اور تمام احوال میں زکوٰہ کی طرح ہے۔

   اس کے تحت حاشیہ ردالمحتارمیں ہے:"لیس المراد تعمیم الاحوال مطلقا من کل وجہ …. بل المراد فی احوال الدفع  الی المصارف "ترجمہ :یہاں تمام احوال میں مطلقا برابری مراد نہیں ہے بلکہ مصارف کو دینے کے لحاظ سے حکم مراد ہے ۔ (تنویر الابصار والدرالمختار وردالمحتار،جلد3،صفحہ379،مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم