Galat Masla Maloom Hone Par Ehtelam Ke Baad Roza Tor Diya Tu Kaffare Ka Hukum

احتلام کے بعد غلط مسئلہ معلوم ہونے پر روزہ توڑنے کا کیا کفارہ ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13321

تاریخ اجراء: 19رمضان المبارک1445 ھ/30مارچ 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید کو روزے میں احتلام ہوا، اس نے ایک مذہبی وضع قطع والے شخص سے اس بارے میں معلوم کیا تو اُس نے کہا کہ احتلام کے سبب تمہارا روزہ ٹوٹ چکا  ہے، جس پر زید نے کھا پی لیا۔  بعد میں زید کو درست مسئلے کا علم ہوا کہ احتلام سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں زید کے لیے اب کیا حکمِ شرع ہے ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   واضح رہے کہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر حسبِ حال علمِ دین حاصل کرنا فرض ہےجس  میں کوتاہی کرنا،  جائز نہیں۔  زید  پر لازم ہے کہ فرض علوم اور خاص کر روزے کے متعلقہ ضروری مسائل سیکھنے میں اب تک جو اس نے کوتاہی کی ہے ، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں صدقِ دل سے اس گناہ سے   توبہ کرےاور فی الفور فرض علوم کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے تاکہ وہ آئندہ ایسی کسی شرعی غلطی  سے محفوظ رہے۔ البتہ پوچھی گئی صورت میں اُس روزے کی فقط قضا کرنا زید کے ذمے پر لازم  ہے۔

   یاد رہے کہ جس شخص نے زید کو یہ مسئلہ بیان کیا کہ” احتلام کے سبب تمہارا روزہ ٹوٹ چکا  ہے “معاذ اللہ اُس نے بالکل ہی غلط  مسئلہ بیان کیا ہے، لہذا اُس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے توبہ کرے  اور آئندہ بغیر علم کے ہرگز کوئی شرعی مسئلہ بیان نہ کرے، کیونکہ بغیر علم کے فتویٰ دینا شریعت پر افتراء باندھنا ہے جوکہ ناجائز وحرام ہےاور قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے۔

   بغیر علم کے فتویٰ دینا  شریعت پر افتراء(تہمت) باندھنا ہے جو کہ سخت نا جائز و حرام ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ الْکَذِبَترجمہ کنز الایمان : ”اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔“ (القرآن الکریم: پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 116)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: واینان کہ فتوی ملعونہ ایشاں رانافذ می کنند ہمہ ہاحرام خدا راحلال می نمایند ہمچو کسان راحرام وسخت حرام ست کہ تصدی بافتاکنند درحدیث فرمود من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض”( ترجمہ: جنھوں نے بھی اس ملعون  فتویٰ کو نافذ کیا ،  انھوں نے اللہ عزوجل کے حرام کو حلال کیا، اور حرام ، سخت حرام کام کیا ۔ (کنزالعمال )کی حدیثِ مبارک ہے"من افتیٰ بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض "یعنی جس نے علم کے بغیر فتویٰ دیااس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 477، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   احتلام سے روزہ ٹوٹنے کے گمان پر کچھ کھاپی لینے سے روزے کی فقط قضا لازم ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع الدر المختار  میں  ہے: ”احتلم أو أنزل بنظر أو ذرعه القيء (فظن أنه أفطر فأكل عمدا) للشبهة۔“ یعنی احتلام ہوا یا نظر کرنے کے سبب انزال ہوا یا قے ہوئی، ان سب صورتوں میں روزہ ٹوٹنے کا گمان ہوا جس پر روزے دار نے کچھ کھاپی لیا، تو شبہہ کی وجہ سے فقط روزے کی قضا لازم ہوگی ۔

   (للشبهة) کے تحت رد المحتار  میں  ہے: ”علة للكل ۔۔۔۔لو احتلم للتشابه في قضاء الشهوة وإن علم أن ذلك لا يفطره فعليه الكفارة ۔“ یعنی یہ تمام بیان کردہ مسائل کی علت ہے۔۔۔۔اگر روزے دار کو احتلام ہوا اور اس نے شہوت پوری ہونے کے شبہ پر  روزہ توڑدیا تو اُس پر روزے کی فقط  قضا لازم ہوگی۔ البتہ اگر اُسے اس بات کا علم تھا کہ اُس کا روزہ نہیں ٹوٹا ہے مگر اُس نے پھر بھی کچھ کھاپی لیا تو اب اُس پرروزے کا کفارہ لازم ہوگا۔“(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الصوم ، ج03، ص431، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کیا تھا یا نظر کرنے سے انزال ہوا تھا یا احتلام ہوا یا قے ہوئی اور ان سب صورتوں میں یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا رہا اب قصداً کھا لیا تو صرف قضا فرض ہے۔(بہار شریعت ، ج01، ص989، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم