Itikaf Ki Mannat Mani Magar Ab Taqat Nahi Rahi

اعتکاف کی منت ماننے کے بعد روزہ و اعتکاف کی طاقت نہ رہے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12136

تاریخ اجراء:    26رمضان المبارک1443 ھ/28اپریل2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی عورت نےحالت صحت میں یہ منت مانی کہ’’میری یہ خواہش پوری ہو، تو میں اعتکاف میں بیٹھوں گی‘‘اب اس عورت میں روزے رکھنے کی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے،اس کی عمر 60 سے 65 کے درمیان ہے۔اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منت کو ایسی چیز پر معلق کرنا کہ جس کا ہونا چاہتا ہواسے شرعی اصطلاح میں نذرِ معلق کہتے ہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ کام ہوجانے پر منت کا پورا کرنا ہی لازم ہے،اس کی جگہ کفارہ دینے سے یا منت میں لازم کی گئی عبادت چھوڑ دینے سے برئ الذمہ نہیں ہوگا۔پوچھی گئی صورت میں جب تک مذکورہ  عورت حیات ہے ،اس پر منت کو پورا کرنا لازم رہے گا،چونکہ واجب اعتکاف یا سنت موکدہ اعتکاف میں روزہ ضروری ہے ،تو روزہ کے بغیر اعتکاف  کی منت پوری نہیں ہو سکتی کہ منت کا اعتکاف واجب ہے۔ابھی قدرت نہیں ،تو انتظار کرے جب قدرت ہو منت پوری کرے۔اگر اس عورت کی موت کا وقت آتا ہے اوروہ اپنی اس منت کو پورا نہ کرسکی ہو، تواس عورت پرہر روز کے اعتبار سے ایک، ایک صدقہ فطر دینے کی وصیت کرجانا لازم ہے۔یعنی اگر رمضان کے اعتکاف کی منت تھی، تو اس صورت میں 10 صدقہ فطر کی وصیت کرے گی ۔علی ھذا  القیاس جتنے دن اعتکاف کی منت تھی ا س موقع پر اتنے کفارے کی وصیت کرنا ہوگی۔

   نذرِ معلق کےحکم سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”ان علق النذر بشرط يريد كونه كقوله ان شفى اللہ مريضی او ردّ غائبی لايخرج عنه بالكفارة كذا فی المبسوط ويلزمه عين ما سمى“یعنی اگر منت کو ایسی چیز پر معلق کیا جس کا ہونا چاہتا ہے، مثلاً: اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا بخشی یا میرا بِچھڑا واپس آگیا ،تو اس صورت میں کفارہ دے کر برئ الذمہ نہیں ہوسکتا، بلکہ جو منت مانی تھی اسی کا پورا کرنا لازم ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،ج2،ص65، مطبوعہ    پشاور)

   منت پوری کرنے پر قدرت نہ ہونے کی صورت سے متعلق شرح مختصر الطحاوی اوربدائع الصنائع میں ہے، واللفظ للثانی:”انشا النذر باعتكاف شهر بعينه فان قدر على قضائه فلم يقضه حتى ايس من حياته يجب عليه ان يوصی بالفدية لكل يوم طعام مسكين لاجل الصوم لا لاجل الاعتكاف۔۔۔وان قدر على البعض دون البعض فلم يعتكف فكذلك ان كان صحيحا وقت النذر“یعنی اگر کسی نے خاص مہینے کے اعتکاف کی منت مانی،لیکن اس خاص مہینے میں اعتکاف نہ کیااور باوجود قدرت کے اس کی قضا بھی نہیں کی،یہاں تک کہ زندگی سے مایوس ہوگیا ،تو اس پر لازم ہے کہ ہر روزکے بدلے ایک صدقہ فطر بطورِ فدیہ دینے کی وصیت کرجائے، یہ وصیت کرنا روزے کی وجہ سے ہے نہ کہ اعتکاف کی وجہ سےاور اگر کچھ دن اعتکاف کرنے پر قادر تھا اور کچھ دن نہیں پھر اعتکاف نہیں کیا تب بھی یہی وصیت والا حکم ہے جبکہ منت ماننے کے وقت تندرست ہو۔     (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،ج3،ص30،مطبوعہ دارالحدیث ،مصر)(شرح مختصر الطحاوی للجصاص،ج2،ص446،مطبوعہ دارالبشائرالاسلامیۃ، بیروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”ولو نذر اعتكاف شهر فمات اطعم لكل يوم نصف صاع من برّ او صاعًا من تمر او شعير ان اوصى كذا فی السراجية ويجب عليه ان يوصی هكذا فی البدائع وان لم يوصِ واجازت الورثة جاز ذلك“یعنی اگر کسی نے ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور بغیر منت پوری کیے مرگیا ،توکسی شرعی فقیر کو ہر روز کے بدلے ایک صدقہ فطردیا جائے، جبکہ مرنے والا وصیت کرگیا ہو، بلکہ مرنے والے پر وصیت کرجانا واجب ہےاوراگر اس نے وصیت نہیں کی تھی،  مگر(بالغ)ورثاء نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا،جب بھی ٹھیک ہے۔   (الفتاوی الھندیۃ،ج1، ص 214 ، مطبوعہ  پشاور)

   معلق منت سے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”اس(یعنی یمینِ معلق)کی دو صورتیں ہیں:اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اس کے ہونے کی خواہش ہے، مثلاً: میرا لڑکا تندرست ہوایا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں، تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا،ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکاپردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا ،تو اتنے روزے رکھنایا خیرات کرنا ضرور ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض کفارہ دے دے۔“(بھار شریعت،ج2،حصہ9،ص314، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اعتکاف کی منت سے متعلق آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور مرگیا، تو ہر روز کے بدلےبقدر صدقہ فطر کے مسکین کو دیا جائے یعنی جبکہ وصیت کی ہواور اس پر واجب ہے کہ وصیت کرجائے اور وصیت نہ کی، مگر وارثوں نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا،جب بھی جائز ہے۔“ (بھار شریعت،ج1،حصہ5،ص1028، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم