Itikaf Ki Qaza Mein Roza Kis Niyat Se Rakhe ?

اعتکاف کی قضامیں روزہ کس نیت سے رکھے؟

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1655

تاریخ اجراء: 28شوال المکرم1444 ھ/19مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک  باجی  رمضان کے آخری عشرکا سنت   اعتکاف بیٹھی  تھیں   تو ان کومجبوراکہیں جاناپڑا،جس وجہ سے ان کا  اعتکاف  ٹوٹ  گیا، تو اب  حکم یہ ہے کہ  ایک  دن کا  اعتکاف روزہ  رکھ کر   قضاکیا جائے تو  پو  چھنا یہ تھا کہ     عیدکے بعدجب اعتکاف کی قضاکریں گی توروزے  میں کون سے   روزے کی نیت  کریں گی؟ رمضان کے  روزے کی  یا  نفلی  روزے کی نیت؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رمضان کے آخری عشرے کاسنت اعتکاف اگرٹوٹ جائے اورعیدکےبعداس کی قضاکرنی ہو،تواس قضامیں جوروزہ رکھاجائے گاا،س کے لیے خاص  قضااعتکاف کے روزے کی نیت کرناضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ  سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے رات میں ہی نیت کی جائے ۔

   تفصیل اس میں یہ ہے کہ :

   رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف اگرچہ سنت ہے لیکن اس کوشروع کرنے سے یہ لازم وواجب ہوجاتاہے جیسے نفل نمازشروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے ،یہاں تک کہ اگراس کوتوڑدے تواس نفل نمازکی قضاکرناواجب ہوتا ہے ،اسی طرح رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف شروع کرکے توڑدے تواس کی قضاواجب ہوتی ہے ۔اورواجب اعتکاف ،واجب روزے سے ہی اداہوسکتاہے ،نفل روزے سے ادانہیں ہوسکتا۔  اورواجب روزے میں خاص اس واجب روزے کی نیت کرناضروری ہوتاہے لہذااس میں بھی قضااعتکاف کے روزے کی نیت کرناضروری ہوگا۔اوریہ واجب غیرمعین ہے یعنی اس کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہے اورجس واجب روزے کاکوئی دن مخصوص نہ ہو تواس میں رات کونیت کرناضروری ہوتاہے لہذااس روزے میں بھی رات کوہی نیت کرناضروری ہے ۔

   نوٹ:آخری عشرے کے اعتکاف میں  پورے دس دنوں کی قضاواجب نہیں ہوتی بلکہ صرف اس ایک دن کی قضا واجب ہوتی ہے ،جس دن کااعتکاف ٹوٹا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس عشرے کے اعتکاف کی مثال چاررکعات نوافل کی سی ہے کہ جس طرح چاررکعات نوافل کاہرشفع علیحدہ نمازہے ،جس شفعے کوتوڑے گا،صرف اسی کی قضالازم ہوگی، مکمل چاررکعات کی قضالازم نہیں ہوگی ،اسی طرح اعتکاف کاہردن علیحدہ حکم رکھتاہے کہ اگرکسی دن کااعتکاف ٹوٹاتوصرف اسی دن کی قضاکرناضروری ہے ۔

   ردالمحتارمیں آخری عشرے کے اعتکاف میں روزہ شرط ہونےاورشروع کرنے سے اس کے لازم ہوجانے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: " قلت: قدمنا ما يفيد اشتراط الصوم فيها بناء على أنها مقدرة بالعشر الأخير ومفاد التقدير أيضا اللزوم بالشروع"ترجمہ:میں کہتاہوں :پیچھے ہم نے وہ بحث ذکرکی ہے ،جواس بات کافائدہ دیتی ہے کہ سنت موکدہ اعتکاف میں روزہ شرط ہے ،اس بناپرکہ وہ آخری عشرے کے ساتھ مقدرہے اور تقدیر کا مفادیہ بھی ہے کہ شروع کرنے سے لازم ہوجائے۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،باب الاعتکاف،ج02، ص444، دارالفکر، بیروت )

   ردالمحتارمیں ہے "وعلى كل فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه۔۔۔۔والحاصل أن الوجه يقتضي لزوم كل يوم شرع فيه عند هما بناء على لزوم صومه بخلاف الباقي لأن كل يوم بمنزلة شفع من النافلة الرباعية وإن كان المسنون هو اعتكاف العشر بتمامه"ترجمہ:بہر صورت امام بن ہمام علیہ الرحمۃ کی بحث سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سنت اعتکاف شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے اور یہ کہ ٹوٹنے کی صورت  میں تمام دنوں  یا باقی دنوں کی قضا کا لازم ہونا امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر مبنی ہے،اور ان کے علاوہ کا قول اس بات کا  تقاضا کرتا ہے کہ صرف اسی دن کی قضا لازم ہو، جس دن اعتکاف توڑا کیونکہ اعتکاف میں ہر دن فی نفسہ مستقل ہوتا ہے ۔اورحاصل یہ ہے کہ طرفین رحمھما اللہ کے نزدیک دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ دن جس میں اعتکاف شروع کرلیا ،اس دن کا اعتکاف لازم ہو کیونکہ اس دن کا روزہ لازم ہے بخلاف باقی ایام کے کہ اعتکاف  میں ہر دن ،چار رکعات نفل کے شفعہ کے قائم مقام ہے، اگرچہ سنت ، پورے دس دنوں کا اعتکاف ہے۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،باب الاعتکاف،ج02،ص444،445،دارالفکر،بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے " الاعتكاف الواجب لا يصح إلا بالصوم الواجب"ترجمہ:واجب اعتکاف درست نہیں ہوتامگرواجب روزے کے ساتھ ۔(فتاوی ہندیہ،الباب السابع فی الاعتکاف،ج01،ص211،دارالفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے” ادائے رمضان اور نذر معیّن اور نفل کے علاوہ باقی روزے، مثلاً قضائے رمضان اور نذر غیر معیّن اور نفل کی قضا (یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا) اور نذر معیّن کی قضا اور کفّارہ کا روزہ اور حرم میں شکار کرنے کی وجہ سے جو روزہ واجب ہوا وہ اور حج میں وقت سے پہلے سر منڈانے کا روزہ اور تمتع کا روزہ، ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیّت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے، خاص اس معیّن کی نیّت کرے اور اُن روزوں کی نیّت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے پھر بھی ان کا پورا کرنا ضرور ہے توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ اگرچہ یہ اس کے علم میں ہو کہ جو روزہ رکھنا چاہتا ہے یہ وہ نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوگا۔"(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 971، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم