Kya 10 Baje Se Pehle Medicine Khane Se Roza Nahi Tutta ?

کیا صبح دس بجے سے پہلے دوا پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12099

تاریخ اجراء: 11رمضان المبارک1443 ھ/13اپریل 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر روزہ دار پیٹ میں درد کی وجہ سے صبح دس بجے سے پہلے پہلے دوا پی لے، تو کیا اس کا وہ روزہ ٹوٹ جائے گا؟ ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے  کہ صبح دس بجے سے پہلے دوا پی لینے سے وہ  روزہ توڑنے والا نہیں کہلائے گا۔

       مزید یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ روزہ ٹوٹنے کی صورت میں فقط قضا لازم آئے گی؟ یا پھر اس روزے کا کفارہ بھی دینا ہوگا؟؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ یاد رہے کہ روزے سے مراد مسلمان کا بہ نیّت عبادت مقررہ وقت میں نیت کرتے ہوئے صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنا ہے۔ لہذا اس مخصوص وقت میں روزے دار نے اگر کچھ کھا پی لیا تو اس کا وہ روزہ ٹوٹ جائے گا، بشرطیکہ اسے اپنا روزہ دار ہونا یاد ہو۔بلکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کسی شخص کو یہ گمان تھا کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے اور وہ کھاتا پیتا رہا پھر بعد میں معلوم ہوا کہ سحری کا وقت تو ختم ہوچکا تھا، تو اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس روزے کی قضا کرے کہ اس کا وہ روزہ ادا نہیں ہوا۔

   لہذا صورتِ مسئولہ میں دس بجے سے پہلے پہلے دوا پی لینے سے بلاشبہ اس شخص کا وہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ البتہ اگر واقعی شدید ترین درد کی وجہ سے کسی صحیح عذر کی بنا پر دوا پی کر روزہ توڑا ہو جبکہ روزہ پورا کرنے کی کوئی صورت نہ ہو، تو اس صورت میں اس روزے کی فقط قضا لازم ہوگی۔ ورنہ اگر معمولی دردکی وجہ سے اس شخص نے دوا پی کر روزہ توڑ دیا اور کفارے کی تمام شرائط پائی جائیں تو اس صورت میں قضاکے ساتھ ساتھ اس روزے کا کفارہ یعنی دوماہ کے لگاتار روزے رکھنا بھی اس شخص پر لازم و ضروری ہوگا، جس کی پوری تفصیل کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔

   اس پوری تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ صورتِ مسئولہ میں یہ سمجھ لینا کہ”صبح دس بجے سے پہلے دوا پی لینے سے وہ روزہ توڑنے والا نہیں کہلائے گا“، یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر حسبِ حال علمِ دین حاصل کرنا فرض ہےجس میں کوتاہی کرنا جائز نہیں، لہذا جس پر روزے فرض ہیں اس پر روزے کے ضروری مسائل سیکھنا بھی فرض ہیں ورنہ بلا عذرِ شرعی ضروری مسائل سیکھنے میں کوتاہی کرنے کے سبب وہ گنہگار ہوگا۔

   صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رکنے کا نام روزہ ہے۔ جیسا کہ "الاختیار" میں ہے : ”الصوم فی الشرع عبارۃ عن امساک مخصوص، و ھو الامساک عن المفطرات الثلاث بصفۃ مخصوصۃ، و ھو قصد التقرب من شخص مخصوص و ھو المسلم بصفۃ مخصوصۃ، و ھی الطھارۃ عن الحیض و النفاس فی زمان  مخصوص، وھو بیاض النھار من ان یکون و ھو ما بعد طلوع الفجر الثانی الی غروب الشمس“یعنی عرفِ شرع میں روزہ کسی مسلمان کا بہ نیّتِ عبادت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے روکے رکھنے کا نام ہے، نیز عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔“ (الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الصوم، ج 01، ص 161،  مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے:”روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے۔ (بہار شریعت ، ج01، ص966، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   روزے کے کفارے کے احکام کے متعلق فتاوی رضویہ میں مذکور ہے:”ساٹھ کا حکم کفارہ میں ہے کہ کسی نے بلاعذر شرعی رمضان المبارک کا ادا روزہ جس کی نیت رات سے کی تھی بالقصد کسی غذا یا دوا یا نفع رساں شئی سے توڑ ڈالا اور شام تک کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہوا جس کے باعث شرعاً آج روزہ رکھنا ضرورت نہ ہوتا تو اُس جُرم کے جرمانہ میں ساٹھ روزے پے درپے رکھنے ہوتے ہیں ویسے جو روزہ نہ رکھا ہو اس کی قضا صرف ایک روزہ ہے واﷲتعالٰی اعلم۔ “ (فتاوی رضویہ ، ج 10، ص 519، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   نیز بہار شریعت میں ہے:”کوئی غذا یا دوا کھائی یا پانی پیا یا کوئی چیز لذّت کے لیے کھائی یا پی ۔۔۔۔تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضا اور کفّارہ دونوں لازم ہیں۔ (بہار شریعت ، ج01، ص991، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   نوٹ:روزے سے متعلق ضروری احکام جاننے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب”فیضانِ رمضان، صفحہ 71 تا 158“سے”احکامِ روزہ“کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم