Kya Aik Fitra Do Afrad Ko De Sakte Hain?

کیا  ایک فطرہ دو افراد کو دے سکتے ہیں؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12794

تاریخ اجراء:20رمضان المبارک1444 ھ/11اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا  ایک فطرہ دو افراد کو دے سکتے ہیں؟؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایک شخص کا فطرہ ایک سے زیادہ مستحق افراد کو دینا شرعاً جائز ہے۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(وجاز دفع كل شخص فطرته إلى) مسكين أو (مساكين على) ما عليه الاكثر، وبه جزم في الولوالجية والخانية والبدائع والمحيط وتبعهم الزيلعي في الظهار من غير ذكر خلاف وصححه في البرهان فكان هو (المذهب) كتفريق الزكاة“یعنی کسی ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین یا اکثر فقہائے کرام کے نزدیک ایک سے زیادہ مساکین کو دینا بھی جائز ہے۔"ولوالجیہ"،"خانیہ"،"بدائع"اور "محیط"میں اسی پر  جزم ہے اور"زیلعی"نے ظہار کے باب میں کسی  اختلاف کو ذکر کیے بغیر انہیں فقہاء کی اتباع کی ہے، اور برہان میں اسی کی تصحیح کی گئی  ہے۔ پس یہی مذہب ہے، جیساکہ ایک شخص  کی زکوٰۃ متفرق فقیروں کو دینا جائز ہوتا ہے۔

   (فكان هو المذهب)کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے:”كذا قال في البحر ردا على ظاهر ما في الزيلعي هنا والفتح من أن المذهب المنع وأن القائل بالجواز إنما هو الكرخي. اهـ. وكذا رده العلامة نوح بأن الأمر بالعكس فإن المانعين جمع يسير والمجوزين جم غفير والاعتماد على ما عليه الجم الكثير۔“ترجمہ:”اسی طرح صاحبِ بحر نے"بحر"میں امام زیلعی کی اس بات کا  رد کرتے ہوئے فرمایا جو کہ یہاں ظاہر ہوتی ہے، اور"فتح"میں ہے کہ مذہب منع ہے اور جواز کے قائل امام کرخی ہیں الخ، اسی طرح علامہ نوح نے بھی  اس کا رد فرمایا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے، پس مانعین کی تھوڑی جماعت ہے جبکہ  مجوزین کا ایک جمِ غفیر ہے لہذا  اعتماد اسی قول پر ہے جس پر فقہاء کی کثیر تعداد ہے۔“(رد المحتار مع در المختار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ج 03، ص 377 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   درر الحکام شرح غرر الحکام میں اس حوالے سے مذکور ہے:”قال في البرهان ويجوز دفع صدقة واحدة لجمع من الفقراء لوجود الدفع إلى المصرف على الصحيح. اهـ.وقال في البحر صرح الولوالجي وقاضي خان وصاحب المحيط والبدائع بجواز تفريق الفطرة الواحدة على مساكين من غير ذكر خلاف فكان هو المذهب كجواز تفريق الزكاة۔“ یعنی صاحب برہان نے فرمایا کہ صحیح قول کے مطابق ایک صدقہ فطر کی مقدار فقراء کی جماعت کو دینا شرعاً جائز ہے کہ یہاں صدقہ فطر اس کے مصرف میں ہی خرچ کیا جارہا ہے الخ، صاحب بحر نے فرمایا کہ علامہ ولوالجی، قاضی خان، صاحبِ محیط برہانی اور بدائع نے بغیر کسی اختلاف کو ذکر کیے ایک فطرہ چند مساکین کو دینے کے جواز کی تصریح فرمائی ہے پس گویا کہ یہی مذہب ہے جیسا کہ چند مساکین کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔“(درر الحكام شرح غرر الأحكام، کتاب الصوم، باب انواع الصیام،  ج 01، ص 196 ، دار إحياء الكتب العربية)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اور چند مساکین کو دے دیا جب بھی جائز ہے۔( بہار شریعت ، ج 01، ص 940، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم