Kya Bahu Ko Sadqa Fitr De Sakte Hain ?

کیا بہو کو صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12105

تاریخ اجراء:14رمضان المبارک1443 ھ/16اپریل 2022  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ساس بہو کو صدقہ فطر دے سکتی ہے، جبکہ بہو مستحق بھی ہے؟؟  رہنمائی فرمادیں۔سائل: رضا بلال(via،میل)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  اگر بہو مستحق زکوۃ ہے توساس اس کو صدقہ فطر دے سکتی ہے۔

   چنانچہ رد المحتار میں منقول ہے:”یجوز دفعھا لزوجۃ ابیہ و ابنہ و زوج ابنتہ۔ "تاترخانیۃ۔" “یعنی سوتیلی ماں، بہو اور داماد کو زکوٰۃ دینا شرعاً جائز ہے، تاترخانیہ میں یونہی مذکور ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج03،ص 344، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”بہو اور داماد اور سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ یا زوجہ کی اولاد یا شوہر کی اولاد کو (زکوۃ) دے سکتا ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 928، مکتبۃ المدینہ،کراچی، ملخصاً)

   صدقہ فطر کے وہی مصارف ہیں جو زکوۃ کے مصارف ہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار میں  ہے:”و صدقۃ الفطر کالزکاۃ فی المصارف“یعنی صدقہ فطر کے وہی مصارف ہیں جو زکوۃ کے مصارف ہیں۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج03،ص 379،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے ہیں یعنی جن کو زکوۃ دے سکتے ہیں، انھیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنھیں زکوۃ نہیں دے سکتے، انھیں فطرہ بھی نہیں۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 940، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم