مجیب: ابوحمزہ محمد حسان عطاری
مصدق: مفتی فضیل رضا
عطاری
فتوی نمبر: 06
تاریخ اجراء: 07رمضان
المبارک4214ھ/20اپریل2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین
ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کا
کہنا ہے کہ حاملہ عورت پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ، اسے روزہ معاف ہے
، کیا یہی حکمِ شرع ہے
؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
اس شخص کا مطلق اس طرح کہنا درست نہیں ، صحیح مسئلہ یہ
ہے کہ حاملہ کے لیے اس وقت روزہ چھوڑنا ، جائز ہے جب اپنی یا بچے کی جان کے ضیاع کا صحیح اندیشہ ہو ،
اس صورت میں بھی اس کے لیے فقط اتنا جائز ہوگا کہ فی
الوقت روزہ نہ رکھے ، بعد میں اس
کی قضا کرناہوگی ، البتہ اس پر کفارہ نہیں ہوگا اورنہ ہی وہ فدیہ دے گی ، فقط
روزے کی قضا کرے گی۔
فتاوی عالمگیری
میں ہے:’’الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو ولدهما
أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة‘‘ ترجمہ : حاملہ اور
دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی یا بچے کی جان کا
اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑسکتی ہیں اور اس کی قضا کریں گی ، ان
دونوں پر اس کا کفارہ نہیں۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے ۔(فتاوی
عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 207 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)
امام عبد اللہ بن محمود بن مودود موصلی رحمہ اللہ
تعالی فرماتے ہیں:’’والحامل والمرضع إذا خافتا على ولديهما أو
نفسيهما أفطرتا وقضتا لا غير ، قياسا على
المريض، والجامع دفع الحرج والضرر‘‘ترجمہ : حاملہ اور مرضعہ کواپنے بچے
یا اپنی جان کا خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑیں گی اور اس
کی صرف قضا ہی کریں گی ، ان کو مریض پر قیاس
کیا گیا ہےاور دونوں میں وجہِ قیاس حرج اور ضرر کا دور
کرنا ہے۔ ‘‘(الاختیار لتعلیل المختار ، ج 1 ، ص 144
، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
علامہ عبد الغنی
میدانی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’والحامل والمرضع إذا
خافتا على ولديهما أفطرتا وقضتا ولا فدية عليهما‘‘ترجمہ : حاملہ اور
مرضعہ کو جب بچے کی جان کا خوف ہو تو روزہ چھوڑدیں گی اور
اس کی قضا کریں گی ان پر اس کا فدیہ نہیں ہے۔(اللباب فی شرح
الکتاب ، ج 2 ، ص 83 ، مطبوعه دار الكتاب العربي ، بیروت )
صدر الشریعہ مولانا امجد علی
اعظمی رحمہ اللہ تعالی سنن
ابی داود، ترمذی، ابن ماجہ
اور نسائی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں ،حضرت انس بن مالک کعبی رضی اللہ
تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ” حضور اقدس صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے
مسافر سے آدھی نماز معاف فرمادی (یعنی چار رکعت
والی دو پڑھے گا ) اور مسافر اور دودھ پلانے والی اور حاملہ سے روزہ
معاف فرمادیا (کہ ان کو اجازت ہے کہ اُس وقت نہ رکھیں بعد میں
وہ مقدار پوری کرلیں)۔ “(بهار شریعت ،
حصہ 5 ، صفحہ 1002 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
مذکورہ حدیث کی شرح
میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی
فرماتے ہیں :’’ یعنی ان تینوں شخصوں سے روزہ کا
فوری وجوب معاف ہوچکا ہے ، اگر چاہیں تو قضا کردیں، خیال
رہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت پر بھی روزے کی قضا
ہی واجب ہے ، وہ فدیہ نہیں دے سکتیں، یہ ہی
ہم احناف کا مذہب ہے یہ دونوں اس حکم میں مسافر کی طرح
ہیں، نیز ان دونوں عورتوں کو قضاء کی اجازت جب ہے جبکہ
انہیں روزہ سے اپنے بچہ پر خوف ہو ۔ ‘‘(مراٰۃ
المناجیح ، ج 3 ، ص 186 ، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ، لاهور)
تنبیہ : بلا علم مسائل شرعیہ
بیان کرنا شرعا جائز نہیں ہے ، ایسے شخص کو اللہ تعالی
کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور جن کو یہ غلط مسئلہ بیان کیا
ہے ان کے سامنے اپنی غلطی کو بیان کرے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟