Kya Maqrooz Ko Sadqa Fitr Diya Ja Sakta Hai?

کیا مقروض کو صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12780

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک1444ھ/29مارچ2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص مقروض ہو تو کیا اسے صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مقروض  اگر سید،  ہاشمی نہ ہو  اورشرعی فقیر بھی ہو ( یعنی اس کی ملکیت میں قرض اور حاجتِ اصلیہ نکال کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت برابر کسی قسم کا زائد سامان سونا چاندی ، نقد رقم ، پرائز بانڈ وغیرہ موجود نہ ہوں ) تو اس صورت میں اُسے صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔

   اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقہ فطر انہی کو دیا جاسکتا ہے جنہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ۔  مقروض اگر شرعی فقیر ہو تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔ہر مقروض شرعی فقیر نہیں ہوتا ۔ ارب پتی کاروباری لوگوں پر تو کروڑوں کا کاروباری قرضہ ہوتا ہے ۔ یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے کہ صر ف قرض دار ہونے سے قربانی واجب نہیں ہوگی یا  وہ مستحق زکوۃ ہو جائے گا۔  قرض کو منہا کرنے  اور حاجت اصلیہ کو نکالنے کے بعد اس کے پاس اگر نصاب کی مقدار مال ہےتو وہ زکوۃ نہیں لے سکتا اور نہ ہی صدقہ فطر۔

   تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(باب المصرف)ای مصرف الزکاۃ و العشر۔۔۔ (ھو فقیر، و ھو من لہ ادنی شیء)ای دون نصاب ۔۔۔۔ (ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) یعنی زکوٰۃ اور عشر کا ایک مصرف فقیر بھی ہے اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے جونصاب سے کم مال کا مالک ہو۔۔۔۔ یونہی مدیون بھی زکوٰۃ کا مصرف ہے جبکہ وہ دین سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو۔

   (ای مصرف الزکاۃ و العشر)کے تحت رد المحتار میں ہے:وھو مصرف ایضاً لصدقۃ الفطر و الکفارۃ و النذر و غیر ذلک من الصدقات واجبۃ کما فی القھستانی “ یعنی یہ لوگ  صدقہ فطر، کفارہ، نذر وغیرہ صدقاتِ واجبہ کا بھی مصرف ہیں۔  جیسا کہ قہستانی میں مذکور ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ،کتاب الزکاۃ، ج03،ص339-333،مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں، انھیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 940، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” جس پر اتنا دین ہو کہ اُسے ادا کرنے کے بعد اپنی حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ چھپن روپے کے مال کا مالک نہ رہے گا اور وہ ہاشمی نہ ہو، نہ یہ زکوٰۃ دینے والا اس کے اولاد میں ہو، نہ باہم زوج و زوجہ ہوں، اسے زکوٰۃ دینا بیشک جائز بلکہ فقیر کو دینے سے افضل۔۔۔۔۔ صدقہ فطر سو  روپے کے سیر سے پونے دو سیر اٹھنی بھر اوپر دیاجائے اور اس کے مصرف وہی لوگ ہیں جو مصرف زکوٰۃ ہیں۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 253-250، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   مقروض کو زکوٰۃ دینے سے متعلق صدر الشریعہ علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں نقل فرماتے ہیں:”فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا مکان پہننے کے کپڑے خدمت کے لیے لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں جس کا بیان گزرا۔ یوہیں اگر مدیُون ہے اور دَین نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے، تو فقیر ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک تو کیا کئی نصابیں ہوں۔ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 924، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم