Kya Musalsal Nafli Roza Rakhna Mana Hai?

کیا مسلسل نفلی روزے رکھنا منع ہے؟نیز  اولاد کو نفلی روزے کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7052

تاریخ اجراء:03ربیع الاول1444ھ/30ستمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ (1)اگر کوئی ایک دو ماہ مثلاً: ربیع الاول اور ربیع الثانی میں لگاتار نفلی روزے رکھنا چاہے، تو اس بارے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟ایک شخص کے بقول کسی حدیث میں لگاتار روزے رکھنے سے منع کیا گیا ہے، تو اس بارے میں بھی رہنمائی فرما دیجیے۔

   (2) نیز کیا اولاد کو نفلی روزہ رکھنے کے لیے اپنے والدین سے اجازت لینا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت کی کثرت بلاشبہ باعثِ حصولِ برکات اور رب عزوجل کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے، بالخصوص روزہ! تو اس کی جزا رب عزوجل خود عطا فرمائے گا، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالخصوص ماہِ رجب و شعبان میں بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام فرمانا ثابت ہے اور دیگر کئی بزرگانِ دین سے بھی مسلسل روزے رکھنا منقول ہے، لہذا آج بھی اگر کوئی شخص لگاتار روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہو اور اس کی وجہ سے دیگر حقوق واجبہ و مستحبہ (مثلاً:نماز، رزقِ حلال کا حصول، والدین کی خدمت، اولاد کی پرورش، اپنی صحت کی حفاظت، رشتہ داروں سے صلہ رحمی وغیرہ)میں کمی کی صورت نہ بنے اور ایام منہی عنہ (جن دنوں میں روزے رکھنا منع ہے، مثلاً:عیدین او رایامِ تشریق، ان  دنوں) میں روزے نہ رکھے، تو مسلسل نفلی روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ مسلسل روزے رکھنا بعض افراد کے لیے بیمار / کمزور ہو جانے کا سبب ہوتا ہے، پھر یہ بیماری/ کمزوری دیگر حقوق کی ادائیگی میں کمی کا باعث بنتی ہے، ایسی صورت میں ان افراد کو چاہیے کہ نفلی روزے مسلسل رکھنے کے بجائے صومِ داؤدی ( ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ) رکھنے کی صورت اپنا لیں، تاکہ جہاں نفلی عبادت کی فضیلت حاصل ہو، وہاں حقوقِ واجبہ و مستحبہ میں کمی واقع نہ ہو، اسی لیے جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صحابی حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے کثرت سے روزہ رکھنے کی خبر ملی، تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی دیگر حقوق کی طرف توجہ بھی دلائی اور ان کے لیے اندیشہ ضعف کی بناء پر انہیں  لگاتار روزے رکھنے کے بجائے صومِ داؤدی کی ترغیب ارشاد فرمائی۔

   روزے کے فضائل مع حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور بزرگانِ دین کا عمل:

   نفلی عبادت کے متعلق بخاری شریف میں حدیث قدسی ہے، اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:’’لا یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ‘‘ ترجمہ: میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، حتی کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، جلد 2، صفحہ 963، مطبوعہ  کراچی)

   روزے کی جزا اللہ عزوجل خود عطا فرمائے گا۔ چنانچہ مسلم شریف میں حدیث پاک ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’کل عمل ابن آدم بضاعف الحسنۃ عشر امثالھا الی سبعمائۃ ضعف، قال اللہ عزوجل: الا الصوم، فانہ لی وانا اجزی بہ، یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند فطرۃ، وفرحۃ عند لقاء ربہ‘‘ ترجمہ: ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس سے سات سو گُنا تک دیا جاتا ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا: سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لیے ہے، اور اس کی جزا میں دوں گا، بندہ اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت، اور ایک اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ (الصحیح لمسلم، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، جلد 1، صفحہ 363، مطبوعہ کراچی)

   متواتر روزے رکھنا کثیر برکتوں کا سبب ہے۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’ان في الجنة غرفا يرى ظاهرها من باطنها وباطنها من ظاهرها اعدها اللہ لمن الان الكلام واطعم الطعام وتابع الصيام وصلى بالليل والناس نيام‘‘ ترجمہ:بے شک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں، جن کا اندر باہر سے اور باہر اندر سے دیکھا جاتا ہے، یہ اللہ عزوجل نے اس کے لیے تیار فرمائے ہیں، جو نرم گفتگو کرے، کھانا کھلائے، متواتر روزے رکھے، اور رات کو نماز پڑھے، جب لوگ سو رہے ہوں۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ، باب التحریض علی قیام اللیل، جلد 1، صفحہ 112، مطبوعہ  لاھور )

   نفلی روزوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک نقل کرتے ہوئے حضرت سیدنا عثمان بن حکیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’سالت سعیدبن جبیرعن صوم رجب ونحن یومئذ فی رجب فقال: سمعت ابن عباس رضی اللہ عنھما،یقول:’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول:لا یفطر،ویفطرحتی نقول:’’لا یصوم‘‘ ترجمہ: میں نے سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے رجب کے روزے کے بارے میں سوال کیا اور اس وقت رجب کا مہینا تھا،تو انہوں نے فرمایا:میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہماکوفرماتے  ہوئے سنا،فرمارہے تھے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے رکھتے،یہاں تک کہ ہم کہتے کہ افطارنہیں کریں گے اورافطار کرتے، یہاں تک کہ ہم کہتے :روزہ نہیں رکھیں گے۔ (الصحیح لمسلم ،کتاب الصیام،جلد2،صفحہ811،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

   ماہِ شعبان میں بھی بکثرت روزے رکھنا منقول ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ لم يكن النبي صلى اللہ عليه وسلم يصوم شهرا اكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان كله ‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے، (گویا) پورے شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ سے رہتے۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، جلد 1، صفحہ 264، مطبوعہ  کراچی)

   صحابہ وتابعین سے بھی لگاتار روزے رکھنا منقول ہے۔ چنانچہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا:’’يا رسول اللہ، اني رجل اسرد الصوم، افاصوم في السفر؟ قال: صم ان شئت، وافطر ان شئت‘‘ ترجمہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں لگاتار روزے رکھنے والا شخص ہوں، کیا سفر میں بھی روزے رکھ لوں، فرمایا: چاہو تو روزہ رکھو، چاہو تو چھوڑ دو ۔(الصحیح لمسلم، کتاب الصیام، باب التخییر فی الصوم و الفطر، جلد 1، صفحہ 357، مطبوعہ کراچی )

   نزہۃ القاری میں ہے : ’’بعض صحابہ کرام جیسے ابو طلحہ انصاری اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہما صومِ دہر رکھتے تھے اور حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا، اسی طرح بہت سے تابعین اور اولیائے کرام سے بھی صومِ دہر رکھنا منقول ہے۔‘‘(نزھۃ القاری، جلد 3، صفحہ 386، فرید بک اسٹال، لاھور )

   ممانعت والی حدیث کا عربی متن مع ترجمہ:

   صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،وہ  فرماتے ہیں: ’’ بلغ النبي صلى اللہ عليه وسلم، اني اسرد الصوم، واصلي الليل، فاما ارسل الي واما لقيته، فقال: الم اخبر انك تصوم ولا تفطر وتصلي؟ فصم وافطر، وقم ونم، فان لعينك عليك حظا، وان لنفسك واهلك عليك حظا، قال: اني لاقوى لذلك، قال: فصم صيام داود عليه السلام، قال: وكيف؟ قال: كان يصوم يوما ويفطر يوما‘‘ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ میں لگاتار روزے رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہوں، یا تو سرکار علیہ السلام نے پیغام بھیجا یا ویسے میری ملاقات ہوئی تو فرمایا: اے عبد اللہ کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تم روزہ رکھتے اور ناغہ نہیں کرتے اور نماز پڑھتے ہو؟ روزہ رکھو اور ناغہ کرو، نماز پڑھو اور آرام کرو، بے شک تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، تمہاری جان اور اہل و عیال کا تم پر حق ہے، میں نے عرض کی : میں اس سے زیادہ طاقت پاتا ہوں، فرمایا: صوم داؤدی رکھو،عرض کی،کیسے؟ فرمایا: ایک دن روزہ رکھو ایک دن افطار کرو۔ ( صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب حق الاھل فی الصوم، جلد 1، صفحہ 265، مطبوعہ  کراچی )

   اس حدیث پاک کا محمل:

   فقہاء و محدثین کرام نے لگاتار روزہ رکھنے سے ممانعت کی دو علتیں ذکر فرمائیں:

    (۱) ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں ایامِ منہی عنہ (عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق یعنی ذو الحج کی گیارہ تا تیرہ تاریخ) میں بھی روزے رکھے جائیں۔

    (۲) لگاتار روزہ رکھنے سے ضعف کا اندیشہ ہو اور اس کی وجہ سے دیگر حقوقِ واجبہ و مستحبہ  میں کمی واقع ہو گی اور ذکر کردہ حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ضعف کی بناء پر لگاتار روزے رکھنے سے منع فرمایا گیا۔جزئیات بالترتیب درج ذیل ہیں:

    (۱)ممانعت ایامِ منہی عنہ کے روزے رکھنے کی وجہ سے ہے۔چنانچہ امام ابو عیسٰی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جامع ترمذی میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:’’وقد كره قوم من اهل العلم صيام الدهر وقالوا: انما يكون صيام الدهر اذا لم يفطر يوم الفطر ويوم الاضحى وايام التشريق، فمن افطر هذه الايام، فقد خرج من حد الكراهية ولا يكون قد صام الدهر كله‘‘ ترجمہ : بعض اہل علم کے نزدیک صیام الدہر(ہمیشہ روزے) رکھنا مکروہ ہے۔ علماء فرماتے ہیں: صیام الدہر کی کراہت تب ہے جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزے رکھے جائیں، ورنہ جو ان ایام کو چھوڑ کر روزہ رکھے ، تو اس کے لیے مکروہ نہیں ہے کہ اس صورت میں وہ تمام زمانے کے روزے رکھنے والا ہی نہیں ہوا۔( جامع ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی صوم الدھر، جلد 1، صفحہ 159، مطبوعہ  کراچی )

   علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:’’اما صوم الدهر فقد اختلف العلماء فیہ، ۔۔۔ذهب جماهير العلماء الى جوازه اذا لم يصم الايام المنهي عنها، كالعيدين والتشريق‘‘ترجمہ: بہر حال صوم الدہر تو علماء کا اس میں اختلاف ہے، جمہور علماء اس کے جواز کی طرف گئے ہیں، جبکہ ایام منہی عنہ جیسے عیدین و ایام تشریق کا روزہ نہ رکھیں۔( عمدۃ القاری، کتاب الصوم، باب حق الاھل فی الصوم، جلد 8، صفحہ 196، مطبوعہ ملتان )

    (۲)ممانعت کی ایک وجہ اندیشہ ضعف ہے، جو حقوق اللہ و حقوق العباد میں کمی کا باعث ہے۔ چنانچہ محدث کبیر علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ ان العلة في نهي صوم الدهر هو الضعف فيكون المعنى انه ان اطاقه احد فلا باس، فهو افضل‘‘ ترجمہ : صوم دہر سے ممانعت کی علت ضعف ہے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ جو اس کی طاقت پائے وہ صوم الدہر رکھے، کوئی حرج نہیں، بلکہ افضل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصوم، باب صیام التطوع، جلد 4، مطبوعہ کوئٹہ )

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’ ان صوم الدهر من شانه ان يفتر الهمة عن القيام بحقوق اللہ وحقوق عباده، فلذا كره واما من لم يؤثر فيه، فانه لا يكره له صومه، بل يستحب له ذلك‘‘ ترجمہ : صوم الدہر کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے سے ہمت کمزور پڑ جاتی ہے، اسی لیے یہ مکروہ ہے، بہر حال اگر یہ حقوق و معمولات میں مؤثر نہ ہو، تو مکروہ بھی نہیں، بلکہ اس کے لیے مستحب ہے ۔ ( مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصیام، باب صیام التطوع، جلد 4، صفحہ 489، مطبوعہ  کوئٹہ )

   شارح بخاری مولانا مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جنہیں مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظن غالب ہو کہ اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ جو حقوق ان پر واجب ہیں، ان کو ادا نہیں کر پائیں گے، خواہ وہ حقوق دینی ہوں یا دنیوی، مثلاً:نماز، جہاد، بچوں کی پرورش کے لیے کمائی اور اگر مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس  کا ظن غالب ہو کہ حقوق واجبہ تو کما حقہ ادا کر لیں گے، مگر حقوق غیر واجبہ ادا کرنے کی قوت نہیں رہے گی،ان کے لیے روزہ مکروہ یا خلاف اولیٰ ہے اور جنہیں اس کا ظن غالب ہو کہ صوم دہر رکھنے کے باوجود تمام حقوق واجبہ، مسنونہ، مستحبہ کما حقہ ادا کر لیں گے، ان کے لیے کراہت بھی نہیں۔‘‘  (نزھۃ القاری، جلد 3، صفحہ 386، فرید بک اسٹال، لاھور )

   فتح القدیر وامداد الفتاح میں ہے:’’ ويكره صوم الدهر لانه يضعفه ‘‘ ترجمہ :صوم دہر یعنی ہمیشہ روزے رکھنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ کمزور کر دیتے ہیں۔ (فتح القدیر، کتاب الصوم، جلد 2، صفحہ 372، مطبوعہ  کوئٹہ )

   خاص حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو منع کرنا ان کے ضعف کی وجہ سے تھا:

   علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اجازت والی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں:’’ فان قلت: يعارضه نهيه صلى اللہ عليه وسلم عبداللہ بن عمرو بن العاص، قلت: يحمل نهيه على ضعف عبد اللہ عن ذلك‘‘ ترجمہ : اگر تو کہے کہ یہ معارض ہے اس نہی کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کو فرمائی، تو میں کہتا ہوں کہ :حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو منع فرمانا ان کے ضعف پر محمول ہو گا۔(عمدۃ القاری، کتاب الصوم، جلد 8، صفحہ 134، مطبوعہ ملتان )

    (2) بنیادی طور پر نفلی روزہ رکھنے کے لیے والدین سے اجازت لینا شرعاً ضروری نہیں، البتہ اگر والدین اولاد کے بیمار ہو جانے کے خوف سے انہیں نفلی روزہ رکھنے سے منع کریں، تو اولاد کو چاہئے کہ والدین کی اطاعت کریں۔

   بہار شریعت میں ہے: ’’لڑکی کو باپ اور ماں کو بیٹے اور بہن کو بھائی سے اجازت لینے کی کچھ ضرورت نہیں او رماں باپ اگر بیٹے کو روزہ نفل سے منع کر دیں، اس وجہ سے کہ مرض کا اندیشہ ہے، تو ماں باپ کی اطاعت کرے۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 5، صفحہ 1008، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم