Kya Shawwal Ke 6 Roze Rakhna Makrooh Hai ? Ek Aitraz Ka Jawab

کیا شوال کے 6 روزے رکھنا مکروہ ہے ؟ ایک اعتراض کا جواب

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0334

تاریخ اجراء: 08 شوال المکرم1445ھ/17 اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ احناف کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہے   ، اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   احناف  کے نزدیک عید الفطر کے بعد شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب ہے ، یہی احناف کی معتمد کتب میں مذکور ہے اور امام محمد بن حسن الشیبانی اور  امام حسن بن زیاد رحمۃ اللہ تعالی علیہما سے مروی ہے ۔ 

   امام  اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی طرف مطلقا ًممانعت کی نسبت درست نہیں ، اول تو کسی سند صحیح سے آپ سے ممانعت ثابت نہیں ، ثانیا جہاں آپ کی طرف ممانعت کی نسبت کی بھی گئی ہے، تو اس  کی صورت یہ ہے کہ رمضان کے فوری بعد عید کے دن بھی روزہ رکھے ، اگر عید کےدن کا روزہ چھوڑ کر روزے رکھتا ہے، تو  اس میں کوئی حرج نہیں ، بالخصوص متفرق ایام میں رکھنا کہ اس سے نصاری سے مشابہت بھی لازم نہیں آتی اور ممانعت کی ایک وجہ یہی بیان کی گئی ہے کہ چونکہ شریعت مطہرہ یہود ونصاری سے مشابہت کی ممانعت فرماتی ہے اور  نصاری نے اسی طرح کیا کہ ان پر جو روزے مقرر کیے گئے اس پر اپنی مرضی سے زیادتی کرتے ہوئے  مزید روزے اپنے اوپر فرض کر لیے ۔ لیکن جب ایسی کوئی بات نہ ہو ، تو   شوال کے روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔

   عید والے دن کو  ملا کر  شوال کے   روزے رکھنا  مکروہ ہے  ، جیسا کہ امام  علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی رحمہ اللہ تعالی  ( متوفی 587  ھ ) فرماتے ہیں :’’ والإتباع المكروه ،هو: أن يصوم يوم الفطر، ويصوم بعده خمسة أيام.فأما إذا أفطر يوم العيد ثم صام بعده ستة أيام: فليس بمكروه بل هو مستحب وسنة‘‘ ترجمہ :  اورشوال کے روزے   پے در پے    رکھنا مکروہ ہے  ،  یعنی عید الفطر کے دن اور اس  کے بعد  پانچ دن کے روزے رکھنا ،  لہذا اگر  کوئی  عید والے دن  کو چھوڑ کر  اس کے بعد  چھ روزے رکھتا ہے، تو   اس میں کوئی کراہت  نہیں،   بلکہ  مستحب اور سنت  ہے ۔( بدائع الصنائع  ، جلد 2 ، صفحہ 78 ، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ )

   حاشیۃ الشلبی علی  تبیین الحقائق  میں  ہے:’’ صوم ست من شوال عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهته وعامة المشائخ لم يروا به بأسا۔۔۔وجه الجواز أنه وقع الفصل بيوم الفطر فلم يلزم التشبه بأهل الكتاب،وجه الكراهة أنه قد يفضي إلى اعتقاد لزومها من العوام لكثرة المداومة ولذا سمعنا من يقول يوم الفطر نحن إلى الآن لم يأت عيدنا أو نحوه فأما عند الأمن من ذلك فلا بأس لورود الحديث به‘‘ ترجمہ : شیخین کے نزدیک  شوال کے  چھ روزے رکھنا  مکروہ  ہے،  جبکہ عام مشائخ اس میں  کوئی حرج نہیں سمجھتے  ۔۔۔ جواز کی وجہ   یہ ہے کہ  عید الفطر کے دن  سے  فصل واقع ہوگیا ہے،  لہذا  اہل کتاب کے ساتھ مشابہت  لازم نہیں آتی  ، مکروہ ہونے کی وجہ  یہ ہے کہ  ہمیشگی کرنے کے سبب عوام  اس کے لازم ہونے کا  یقین کر لے گی  ، اسی وجہ سے  ہم یہ سنتے ہیں کہ  لوگ عید الفطر  کے دن  کہتے ہیں کہ   ہمارے لیے ابھی تک عید نہیں آئی  یا اس کی مثل،  لہذا  جب اس  سے امن ہو تو  روزے رکھنے میں کوئی  حرج نہیں ،کیونکہ اس کے متعلق حدیث  پاک آئی ہے  ۔(  حاشیۃ الشلبی  مع تبیین الحقائق   ، جلد 2 ، کتاب الصوم  ،  صفحہ  188 ، مطبوعہ قاھرہ )

   صاحب ہدایہ اپنی تصنیف التجنیس والمزید میں  فرماتے ہیں:’’ صوم الستة بعد الفطر متتابعة منهم من كرهه والمختار أنه لا بأس به لأن الكراهة إنما كانت لأنه لا يؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبها بالنصارى والآن زال ذلك المعنى ‘‘ ترجمہ : عید الفطر کے بعد  پے در پے  چھ روزے  رکھنا   بعض نے اس کو مکروہ کہا  ہے اور مختار  یہ  ہےکہ اس میں کوئی حرج نہیں،  کیونکہ  کراہت اس وجہ سے ہے کہ  خوف ہو کہ روزہ رکھنے  والا  اس کو   رمضان کا فرض روزہ نہ شمار کر لے،  تو  نصاری کے ساتھ مشابہت ہوجائے گی  اور اب ( عید کے بعد رکھنے پر )  یہ مشابہت ختم ہوگئی  ہے ۔(  التجنیس والمزید ،  جلد 2 ،  مسئلہ 1227 ، صفحہ 412 ، مطبوعہ بیروت )

   در مختار میں ہے:’’ (وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافا للثاني حاوي.والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال‘‘ ترجمہ :  اور  شوال کے چھ روزے الگ الگ  رکھنا  مستحب ہے  اور  مفتٰی بہ قول کے مطابق  پے در پے رکھنا  بھی مکروہ نہیں ہے  ، برخلاف امام  ابو یوسف کے  :حاوی :  اور  پے  در پے مکروہ ہے  اس طرح کہ  عید الفطر  اور اس کے بعد پانچ روزے رکھے،  لہذا اگر  عید الفطر  کو روزہ نہ رکھا،  تو کوئی کراہت نہیں، بلکہ مستحب  ہے اور ابن کمال نے سنت کہا ہے ۔

    (الاتباع ) کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں فرمایا:’’ ای تحریما  للتشبیہ  باھل الکتاب  فی  الزیادۃ  علی صومھم  وللاعراض  فی الیوم الاول  عن اجابۃ  دعوۃ اللہ  تعالی ‘‘ترجمہ :  مکروہ یعنی  مکروہ تحریمی ہے  ، اہل کتاب کے ساتھ ان  کے اپنے روزے پر زیادتی کرنے میں  مشابہت  کے سبب  ،   اور  پہلے دن (عید الفطر) کو اللہ تعالی کی  دعوت کو قبول کرنے سے منہ موڑنے کی وجہ سے  ۔( حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ، جلد 3 ، صفحہ 438  ، مطبوعہ بیروت )

    محیط برہانی میں ہے:’’قال الحاكم الشهيد في «المنتقى» : وجدت عن الحسن أنه كان لا يرى لصوم ستة أيام متتابعاً بعد الفطر بأساً، وكان يقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين شهر رمضان‘‘ ترجمہ :  حاکم شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے’’ منتقٰی ‘‘میں  فرمایا کہ  مجھے  حسن بن زیاد سے یہ روایت  ملی ہے کہ    عید الفطر کے بعد  چھ روزے پے در پے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے  اور وہ فرماتے تھے  عید الفطر کا دن ہی  ان روزوں اور رمضان کے روزوں میں فرق کرنے کے لیے  کافی ہے  ۔( المحیط البرھانی ، جلد 3   صفحہ 362 ، مطوعہ  بیروت ) 

   رد المحتار میں اس تمام   تفصیل کو بیان کرتے ہوئے  علامہ ابن  عابدین شامی علیہ الرحمۃ  ( متوفی 1252 ھ ) فرماتے ہیں:’’  قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعة منهم من كرهه والمختار أنه لا بأس به لأن الكراهة إنما كانت لأنه لا يؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبها بالنصارى والآن زال ذلك المعنى ، ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث والواقعات للحسام الشهيد والمحيط البرهاني والذخيرة؛ وفي الغاية عن الحسن بن زياد أنه كان لا يرى بصومها بأسا ويقول كفى بيوم الفطر مفرقا بينهن وبين رمضان ،وفيها أيضا عامة المتأخرين لم يروا به بأسا‘‘ ترجمہ :  صاحب ہدایہ نے  کتاب التجنیس میں فرمایا  ، بے شک عید الفطر کے بعد  پے در پے  چھ روزے  رکھنا  ، بعض نے اس کو مکروہ کہا  ہے اور مختار  یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں،  کیونکہ  کراہت اس وجہ سے تھی کہ  خوف تھا کہ روزہ رکھنے  والا  اس کو   رمضان کا فرض روزہ نہ شمار کر لے  ،تو نصاری کے ساتھ مشابہت ہوجائے گی  اور اب ( عید کے بعد رکھنے پر )  یہ مشابہت ختم ہوگئی  ہے ۔  اور اسی کی مثل  امام ابو لیث کی کتاب النوازل  ،  حسام شہید کی واقعات ، محیط برہانی ، اور فتاوی ذخیرہ میں ہے  ، غایہ شرح ہدایہ میں  حسن بن زیاد سے روایت ہے  کہ   آپ   یہ روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے  اور فرماتے تھے عید الفطر کا دن ہی  ان روزوں اور رمضان کے روزوں میں فرق کرنے کے لیے  کافی ہے  ۔  اور اس میں یہ بھی ہے کہ عام متأخرین اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔( رد المحتار ، جلد 3 ،صفحہ 484 ،   مطبوعہ  دار المعرفہ، بیروت )

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے رسالے کے حوالے سے لکھتے ہیں :”وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول“ ترجمہ:اور علامہ قاسم نے منظومہ تبانی اور اس کی شرح میں  جو امام ابو حنیفہ کی طرف مطلقا کراہت کی نسبت کی گئی اور اس کو اصح کہا گیا اس کا یہ کہہ کر رد فرمایا کہ یہ روایت غیر اصول کی ہے ۔(رد المحتار،جلد 3،صفحہ 486، طبع بیروت )

   اس موضوع پر محدث احناف فقیہ  امام قاسم بن قطلوبغا رحمۃ اللہ تعالی علیہ  (المتوفی  879ھ) نے مسقلا ًایک رسالہ تحریر فرمایا ہے ۔ جس کا نام ’’تحریر  الأقوال في صوم الست من شوال ‘‘ ہے۔  اس میں اس بات کو کتب احناف سے  دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ  احناف کا صحیح مذہب یہی ہے کہ شوال کے روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مستحب وسنت ہے ۔ مزید تفصیل اس رسالے میں دیکھی جاسکتی ہے۔   

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم