Masjid Ke Imam Ko Fitra Dena Kaisa ?

امام مسجد کو فطرانہ دینے کا حکم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2562

تاریخ اجراء: 01رمضان المبارک1445 ھ/12مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر امام صاحب  شرعی فقیرہیں اور سید یا ہاشمی نہیں ہیں ،تو انھیں فطرانہ دے سکتے ہیں ،جبکہ فطرانہ ان کی تنخواہ میں نہ دیاجائے بلکہ علیحدہ سے دیاجائے۔اگران میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی توامام صاحب کودینے سے فطرانہ ادانہیں ہوگا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر امام صاحب  شرعی فقیرہیں اور سید یا ہاشمی نہیں ہیں ،تو انھیں فطرانہ دے سکتے ہیں ،جبکہ فطرانہ ان کی تنخواہ میں نہ دیاجائے بلکہ علیحدہ سے دیاجائے۔اگران میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی توامام صاحب کودینے سے فطرانہ ادانہیں ہوگا۔

   تفصیل یہ ہے کہ فطرانہ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کا مصرف شرعی فقیر ہے ، یعنی وہ بندہ جس کے پاس حاجتِ اصلیہ  کے علاوہ اور اگر قرض ہو تو اسے مائنس کرنے کے بعد کوئی بھی مال یا سامان اتنا موجود نہ ہو کہ اس کی ٹوٹل مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، ایسا شخص شرعی فقیر ہے ، ایسے شخص کو زکوۃ، فطرانہ دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ سید یا ہاشمی نہ ہو ۔

   تنویر الابصار میں ہے” وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف“ترجمہ:صدقہ فطر کے وہی مصارف ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں۔(تنویر الابصار مع رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 368،دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے” صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں، انھیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنھیں زکاۃ نہیں دے سکتے، انھیں فطرہ بھی نہیں سوا عامل کے کہ اس کے لیے زکاۃ ہے فطرہ نہیں۔"(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 940،مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے” مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو۔۔۔ اور نصاب مذکورہ پر دسترس نہ ہونا چند صورت کو شامل: ایک یہ کہ سرے سے مال ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کہتے ہیں۔ دوم مال ہو مگر نصاب سے کم، یہ فقیر ہے، سوم نصاب بھی ہو مگر حوائجِ اصلیہ میں مستغرق، جیسے مدیون۔(فتاوی رضویہ،ج 10،ص 110،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے” مدرسہ اسلامیہ اگر صحیح اسلامیہ خاص اہلسنت کا ہو۔۔۔تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جُدا رکھے اور خاص تملیک فقیر کے مصارف میں صرف کرے مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی۔"(فتاوی رضویہ،ج 10،ص 254،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی بحر العلوم میں ہے”زکاۃ اور فطرہ کی رقم مدرسین کی تنخواہ یا مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں صرف نہیں کی جا سکتی۔"(فتاوی بحر العلوم،ج 2،ص 204،شبیر برادرز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم