Qaza Roza Toot Jaye To Dobara Kitne Roze Rakhne Honge?

قضا روزہ ٹوٹ جائے، تودوبارہ  کتنے روزے رکھنے ہوں گے ایک یا دو؟

مجیب:مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fam-242

تاریخ اجراء:16 جمادی الاخری1445ھ/30 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص قضا روزے رکھے،مگر پھر روزہ توڑ دے یا کسی وجہ سے  روزہ ٹوٹ جائے ،تواب اس صورت میں  کیا اسے دو(2) روزے رکھنے پڑیں گے،ایک وہی روزہ  جس کے لیے قضا کی جارہی تھی،اور دوسرا  اس قضا روزے کی قضا کے طور پر ایک روزہ ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قضا روزہ  رکھ کر توڑنے،یا کسی وجہ سے ٹوٹ جانے کی صورت میں  دو (2)روزوں کی قضا لازم نہیں ہوگی ،بلکہ صرف ایک روزے ہی کی قضا کرنی ہوگی ،یعنی جس روزے کی قضاکرنے کی نیت سے  قضا  روزہ رکھا  گیاتھا،تو چونکہ اُس روزے کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے قضا روزہ ذمہ پر لازم رہا ، لہٰذا اسی کو اب دوبارہ قضا کرنا   لازم ہوگا۔باقی  جس قضا روزے کو توڑدیا  ہے،یا   کسی وجہ سے  ٹوٹ گیا ہے، تو اس قضا روزے کی بھی قضا کرنا لازم نہیں ۔خیال رہے! قضا روزہ  جب شروع کردیا جائےتو اسے بھی بلا عذر شرعی توڑنا ، ناجائز و گناہ ہے ،لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر بغیر کسی عذرِ شرعی کے قضا روزہ توڑدے ،تو اُس پرایک روزے کی دوبارہ  قضا کے ساتھ ساتھ جان بوجھ کر روزہ توڑنے والے گناہ سے توبہ کرنا بھی ضروری ہوگا۔

    قضا  روزے کو فاسد کردینے سےالگ سے اُس قضا روزے کی قضا واجب نہیں ہوگی،جیسا کہ اس مسئلے کوقضا حج کے فاسد کردینے والے مسئلے کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے،چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں  لکھتے ہیں:’’ولو أفسد القضاء هل يجب قضاؤه؟ لم أره، والذي يظهر أن المراد بالقضاء الإعادة ‘‘ترجمہ:اور اگر کوئی شخص قضا حج کو فاسد کردے،تو کیا اس کی قضا واجب ہوگی؟میں نے اسے نہیں دیکھا اور جو بات ظاہر ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں قضا سے مراد اعادہ ہے۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’(قوله هل يجب قضاؤه) أي قضاء القضاء الذي أفسده حتى يقضي حجتين للأولى والثانية (قوله لم أره إلخ) البحث لصاحب النهر حيث قال فيه لما سئل عن ذلك، لم أر المسألة وقياس كونه إنما شرع فيه مسقطا لا ملزما أن المراد بالقضاء معناه اللغوي، والمراد الإعادة كما هو الظاهر۔۔۔ وحينئذ فلا يلزمه قضاء حج آخر وإنما يلزمه أداؤه ثالثا ۔۔۔، فكلما أفسده لا يلزمه سوى الواجب عليه أولا كما لو شرع في صلاة فرض فأفسدها. وقد وجد العلامة الشيخ إسماعيل النابلسي هذه المسألة منقولة فقال: ولفظ المبتغى لو فاته الحج ثم حج من قابل يريد قضاء تلك الحجة فأفسد حجه لم يكن عليه إلا قضاء حجة واحدة كما لو أفسد قضاء صوم رمضان ‘‘ترجمہ:شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول :کیا اس کی قضا واجب ہوگی یعنی اس قضا حج  کی قضا کرنا لازم ہوگا ،جسے اس نے  فاسد کردیا، یہاں تک کہ وہ دو حج  کی قضا کرے،ایک پہلے والے حج کی اور دوسرے  قضا والے حج کی ۔شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہ میں نے نہیں دیکھا۔یہ صاحب نہر کی بحث ہے کہ جب ان سے اس کے متعلق پوچھا گیا،تو انہوں نے فرمایا  کہ میں نے اس مسئلہ کو نہیں دیکھا،اور قیاس تو یہ ہے کہ قضا کو ساقط کرنے کے طور پر مشروع کیا گیا  ہے،لازم کرنے کے لیے مشروع نہیں کیا گیا   ،تو قضا سے مراد اس کا لغوی معنی ہے اور مراد اعادہ ہے، جیسا کہ ظاہر ہے۔(اس کے بعد آگے جاکر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں) تو اب اس پر اس دوسرے  قضا حج کی قضا  لازم نہیں ہوگی،بلکہ اس پر پہلے والے حج کو ہی تیسری بار ادا کرنا لازم ہوگا ۔۔۔لہذا جب جب وہ اسے فاسد کرے گا تو اس پر اس واجب حج کے سواکوئی دوسرا حج لازم نہیں ہوگا،جیسا کہ جو فرض نماز شروع کرے پھر اسے فاسد کردے(تو اس پر ایک نماز کی ہی قضا لازم ہوتی ہے۔)۔علامہ شیخ  اسماعیل نابلسی  رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کو منقول شدہ پایا  تو فرمایا کہ مبتغی کے الفاظ یہ ہیں کہ  اگر کوئی حج کو فوت کردے ،پھر آنے والے سال  اس حج کی قضا کے ارادے سے حج کرے ،پھر اپنے اس قضا حج کو فاسد کردے،تو اس پر صرف ایک حج کی ہی قضا لازم ہوگی، جیسا کہ اگر کوئی شخص رمضان کے قضا روزے کو فاسد کردے(تو اس پر ایک روزے کی ہی قضا لازم ہوتی ہے)۔(در مختار مع رد المحتار،جلد3،باب الجنایات،صفحہ674-675،مطبوعہ کوئٹہ)

    بحر الرائق  شرح کنز الدقائق میں ہے:’’لو أفسد قضاء صوم رمضان أي فإنه لايلزمه إلا قضاء يوم واحد‘‘ترجمہ:اگر کوئی  شخص رمضان  کے قضا روزے کو فاسد کردے ،تو اس پر ایک دن کے روزے کی قضا ہی لازم ہوگی۔(بحر الرائق ،جلد3،صفحہ17، دار الكتاب الإسلامي،بیروت)

   بلا عذر شرعی قضا روزہ توڑنا  بھی جائز نہیں،کہ یہ عمل کو باطل کرنا ہے جس کی ممانعت ہے،چنانچہ تحفۃ الفقہاء میں ہے:’’من شرع في الصوم في وقته ونوى الإمساك لله تعالى انعقد فعله صوما شرعيا فيجب عليه الإتمام ويحرم عليه الإفطار سواء كان في صوم الفرض أو في التطوع لأنه إبطال العمل لله تعالى وأنه منهي عنه لقوله تعالى﴿ وَ لَا تُبْطِلُوۡۤا اَعْمَالَکُمْ ‘‘ترجمہ:جو روزے کو اس کے وقت میں شروع کردے اور اللہ تعالی کے لیے (روزہ توڑنے والی چیزوں سے)رکنے کی نیت کرلے،تو اس کا یہ فعل، شرعی روزہ بن جائے گا،لہذا اس پر اُس  روزے کا پورا کرنا واجب ہوگا،اور روزہ توڑنا حرام ہوگا،چاہے وہ فرض روزہ  ہو یا نفل روزہ،کیونکہ یہ اللہ تعالی کے لیے کیے جانے والے عمل کو باطل کرنا ہے اور اس سے ممانعت  کی گئی ہے، اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے کہ” اور اپنے عمل باطل نہ کرو۔‘‘(تحفۃ الفقھاء،جلد1،کتاب الصوم،صفحہ351،دار الكتب العلميہ، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم