Roze Ke Kaffare Ki Raqam Madrase Mein Dena

روزے کے کفارے کی رقم مدرسے میں دینا

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2643

تاریخ اجراء: 07شوال المکرم1445 ھ/16اپریل2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا روزے کے کفارہ کی رقم  کسی سنی  مدرسے میں دی جاسکتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس شخص  پر روزہ توڑنے کے سبب شرعا کفارہ لازم ہوا تو وہ   ایک روزہ توڑنے کے بدلے مسلسل بلاناغہ ساٹھ روزے رکھے،درمیان میں ایک دن بھی روزہ چھوڑ دیا تو از سر نو ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے، اگر روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو  دو  وقت  کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا واجب ہوگا، جوان صحت مند آدمی کےلیے کفارے میں روزے چھوڑ کر مسکینوں  کو کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر مذکورہ شخص مسلسل  ساٹھ روزے رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، تو اس  صورت میں  کفارے کی رقم براہ راست  کسی سنی مدرسہ وغیرہ  میں  نہیں دے سکتا  اور اگر ایسا کیا تو کفارہ  بھی ادا نہیں ہو گا،کہ کفارے کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ  کا مصرف ہے ۔

    البتہ اگر  زکوۃ کے مستحق شخص کو کفارے  کی رقم دے کر اس کا مالک بنا دیا جائے اور وہ   اس رقم پر قبضہ کرکےاپنی خوشی سےوہ رقم سنی مدرسہ  میں دے دے  ، تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔اور اس طرح کفارہ بھی ادا ہوجائے گا ۔اور چونکہ ایک مسکین  کے کھانے  کی مقدار وہی ہے جو صدقہ فطر کی ہے،لہذا ایک کفارے کی مد میں ساٹھ صدقہ فطر کے برابر رقم دینا ضروری ہوگا۔

   روزہ توڑنےکےکفارےکےمتعلق خلاصۃالفتاوی میں ہے” كفارة الفطر وكفارة الظهار واحدة ، وهی عتق رقبة مؤمنة او كافرة فان لم يقدرعلى العتق فعليه صيام شهرين متتابعين،وان لم يستطع فعليه اطعام ستين مسكينا “ ترجمہ:روزہ توڑنےاور ظہارکاکفارہ ایک ہی ہےکہ مسلمان یاکافرکی گردن آزادکرے، اگر اس پرقدرت نہ ہوتودوماہ کےلگاتار روزےرکھے اوراگراس پربھی قدرت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے۔“ (خلاصۃالفتاوی،کتاب الصوم،الفصل الثالث،جلد 1،صفحہ 261،مطبوعہ کوئٹہ)

     کفارے  کے مصرف کے  متعلق رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’(مصرف الزکوۃ والعشر)هو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني ‘‘ترجمہ:جو زکوٰۃ و عشر  کا مصرف ہے،وہی  صدقہ فطر،کفارہ ، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کا بھی مصرف ہے جیسا کہ قہستانی میں ہے۔“(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،با ب المصرف،صفحہ333،مطبوعہ کوئٹہ)

   زکوۃ کی رقم مسجد ،مدرسے وغیرہ  میں لگانے کے متعلق، صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:” ہاں اگر ان میں زکوۃ صرف کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مال زکوۃ فقیر کو دے کر مالک کر دے پھر وہ فقیر ان امور میں وہ مال صرف کرے تو ان شاء اللہ ثواب دونوں کو ہو گا۔“(فتاوی امجدیہ، ج1،حصہ 1، ص370، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم