Roze Ki Halat Mein Hont (Lips) Ki Khal Khane Ka Hukum

روزے میں ہونٹ کی کھال کھانے کا حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Faj-7022

تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم 1443 ھ/16مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض افراد کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ نچلے ہونٹ کے بیرونی حصے کو دانتوں کے ذریعے اندر دباتے اور پھر اس بیرونی حصے سے خشک کھال دانتوں کے ذریعہ کاٹ کر منہ میں لے جاتے ہیں ، بعض اوقات منہ سے یہ کھال تھوک دی جاتی ہے اور بعض اوقات یہ کھال حلق کے اندر بھی چلی جاتی ہے ،کبھی تو یہ کھال بالکل چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی نسبتاً کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسے افراد اگر دوران روزہ اپنے ہونٹوں سے کھال کاٹیں اور روزہ یاد ہوتے ہوئے بغیر چبائے وہ کھال غلطی سے ان کے حلق کے نیچے اتر جائے، تو ان کے روزے کا کیا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   روزہ دار نے حالت ِروزہ میں منہ کے باہر سے کوئی چیز لی اور وہ چیز بغیر چبائے غلطی سے یا بالقصد حلق سے نیچے اتر گئی اور روزہ دار کو روزہ بھی یاد تھا ،تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،چاہے وہ چیز تھوڑی ہو یا زیادہ ہو ۔ پوچھی گئی صورت میں جب روزہ دار ہونٹوں سے کھال کاٹے گا، تو وہ منہ کے باہر سے کھال کو منہ کے اندر لے جائے گا، لہذا یہ کھال بغیر چبائے غلطی سے یا بالقصد حلق سے نیچے اتر گئی اور روزہ دار ہونا بھی یاد تھا، تو روزہ ٹوٹ جائے گا ،چاہےوہ کھال کم ہو یا زیادہ، اس روزہ کی قضا لازم ہوگی، کفارہ واجب نہیں ہوگا ۔

   حاشیۃ الشلبی میں ہے:”اكل شيء من خارج والحكم فيه فساد الصوم قليلا كان الماكول كسمسمة او كثيرا “خارج سے کوئی چیز لے کر کھائی، تو اس میں حکم یہی ہے کہ روزہ فاسد ہوجائے گا ، کھائی جانے والی چیز چاہے قلیل ہو جیسا کہ تل یا کثیر ہو۔ (حاشیۃ الشلبی علی التبیین ، جلد1، صفحہ 399، مطبوعہ بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے :”واما اذا ادخله من خارج فينظر ان ابتلعه من غير مضغ فطره قل او كثر “ یعنی خارج سے کوئی چیز منہ میں داخل کی اور بغیر چبائے نگل گیا، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، چاہے چیز کم ہو یا زیادہ ۔ (تبیین الحقائق، جلد2، صفحہ173، مطبوعہ بیروت)

   ملتقی مع شرح در المنتقی میں ہے :”(ولو اکل سمسمۃ )المراد ما دون الحمصۃ (من الخارج ان ابتلعھا افطر)۔۔۔(وان مضغھا فلا) لتلاشیھا بین اسنانہ الا ان یجد الطعم فی حلقہ“یعنی اگر کسی نے باہر سے تل منہ میں لے کر کھایا (مرادہر وہ چیز ہے جو چنے کی مقدار سے کم ہو)اگر اس نے بغیر چبائے نگل لی، تو روزہ گیا اور اگر چبایا ہے، تو نہیں گیا کیونکہ اتنی چھوٹی مقدار کی چیز چبانے سے دانتوں میں گم ہوجاتی ہے، لیکن اگر  اس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا ،تو چبانے والی صورت میں بھی روزہ ٹوٹ جائے گا ۔(الملتقی مع شرح در المنتقی للحصکفی، جلد1، صفحہ 362، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے :”تل یا تل کے برابر کھانے کی کوئی چیز باہر سے مونھ میں ڈال کر بغیر چبائے نگل گیا ،تو روزہ گیا۔ (بھار شریعت، جلد1، صفحہ 993، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   غلطی سے روزہ توڑنے والی چیز پائی جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزہ کی صرف قضا لازم ہوگی ۔ ہندیہ میں ہے:’’وان تمضمض او استنشق فدخل الماء جوفہ ان کان ذاکرالصومہ فسد صومہ وعلیہ القضاء وان لم یکن ذاکرالایفسد صومہ ‘‘ یعنی اگر کسی شخص نے کلی کی یاناک میں پانی چڑھایااور بلا قصد پانی حلق سے اتر گیا، تواگر روزہ دار ہونایاد ہے ،توروزہ جاتا رہااوراس پر قضاہے اوراگر روزہ ہونا بھول گیا ہو تو نہیں ٹوٹے گا ۔‘‘    (الفتاوی الھندیۃ ، جلد1 ، صفحہ 202 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’کلی کر رہا تھا بلا قصد پانی حلق سے اتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا روزہ جاتا رہا، مگر جب کہ روزہ ہونا بھول گیا ہو تو نہ ٹوٹے گا اگرچہ قصداً ہو ۔ ‘‘  (بھار شریعت ، جلد1 ، صفحہ 987 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   فسادِ صوم کی وہ صورتیں جن میں صرف قضا لازم ہوتی ہے ،ان کو بیان کرتے ہوئے صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :”پتھر، کنکری، مٹی، روئی، کاغذ ، گھاس وغیرہ ایسی چیز کھائی جس سے لوگ گھن کرتے ہیں“ (بھار شریعت، جلد1، صفحہ 989، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم