Roze Ki Niyat Me Shak Ho Tu Roze Ka Hukum

روزے کی اصلِ نیت ہی میں شک ہو، تو کیا حکم ہے؟

مجیب:    ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12236

تاریخ اجراء:      14ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/14جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کو رات میں پیٹ میں شدید درد ہوا تو اس نے سحری میں اس طرح روزے کی نیت کی کہ اگر دن میں میرے پیٹ میں درد ہوا تو میرا روزہ نہیں، ورنہ میرا روزہ ہے۔ اب ہوا یوں کہ فجر کی نماز کے بعد پھر اس کے پیٹ میں شدید درد ہوا جس کی وجہ سے مجبوراً اسے شربت پینا پڑا۔

   آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں کیا ہندہ پر اس روزے کی قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر اصلِ نیت ہی میں شک ہو تو اس صورت میں وہ شخص روزہ شروع کرنے والا نہیں کہلائے گا، لہذا پوچھی گئی صورت میں ہندہ کا وہ روزہ شروع ہی نہیں ہوا کہ جس کی قضاء یا کفارہ اس پر لازم ہو۔

   البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر وہ فرض روزہ تھا تو ہندہ پر اس روزے کی قضا لازم ہے اور اگر نفل روزہ تھا تو ہندہ پرشرعاً  کچھ بھی لازم نہیں۔ 

   روزے کی اصل نیت میں شک ہونے کے متعلق محیط البرہانی میں مذکور ہے:”فان کان التردید فی اصل النیۃ بان نوی ان کان غدا من رمضان فھو صائم عن رمضان ،وان کان من شعبان فھو غیر صائم اصلا ،فانہ لایصیر صائما بھذہ النیۃ اصلا ،وان کان غدا من رمضان ۔فھو نظیر مالونوی ان یفطر غدا متی دعی الی دعوۃ ویصوم ان لم یدع ،فانہ لایصیر صائما بھذہ النیۃ اصلا وان لم یدع۔“یعنی اگر تردد اصل نیت میں ہو ،یعنی وہ یوں نیت کرے اگر کل رمضان ہو ا تو و ہ رمضان کا روزہ دار ہے ،اگر شعبان ہو اتو وہ روزہ دار نہیں ۔اگرچہ کل رمضان ہوجائےتواس نیت سے اصلا روزہ دار نہیں کہلائےگا۔اس کی نظیر یہ مسئلہ ہےکہ اس نے یوں نیت  کی کہ اگر اسے کل دعوت پر بلایا گیا تو اس کا روزہ نہیں ،اگر دعوت پرنہ بلایا گیاتو روزہ دارہے،تواس نیت سے بھی وہ روزہ دار نہیں ہوگا  اگرچہ کل دعوت پر نہ جائے۔(المحیط البرھانی، کتاب الصوم، ج 03، ص 364،مطبوعہ  بیروت )

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”و ان نوی ان یفطر غداً ان دعی الی دعوۃ و ان لم یدع یصوم لا یصیر صائماً بھذہ النیۃ“یعنی اگر کسی شخص نے یوں نیت کی کہ اگر کل دعوت ہوئی تو اس کا روزہ نہیں، اور اگر دعوت نہ ہوئی تو وہ روزے سے ہے تو اس صورت میں وہ اس نیت کے سبب روزے دار نہیں کہلائے گا۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الصوم ، ج 01، ص 195،  مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”یوں نیّت کی کہ کل کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو روزہ ہے یہ نیّت صحیح نہیں، بہرحال وہ روزہ دار نہیں۔“(بہار شریعت،ج01، ص968، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم