Rozedaar Ki Dua Qabool Hone Ka Konsa Waqt Hai ?

روزے دار کی دعا قبول ہونے کا وقت نیز کیا یہ بشارت نفل روزہ رکھنے والے کے لیے بھی ہے ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-11683

تاریخ اجراء: 01 ذوالحجۃ الحرام     1442 ھ/12 جولائی   2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے ،یہ ارشاد فرمائیں کہ:

   (1) دعا قبول ہونے کی بشارت صرف افطار کے وقت سے خاص ہے یا روزے کی حالت میں کسی وقت بھی دعا کرنے پر یہ بشارت حاصل ہو گی ؟

   (2)کیا دعا قبول ہونے کی بشارت نفل روزہ رکھنے والے کو بھی حاصل ہو گی یا یہ صرف فرض روزے کے ساتھ ہی خاص ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) روزہ دار کی دعا قبول ہونے کا تعلق دونوں وقت یعنی پورے دن اور افطار کے وقت سے ہے ۔

   اس کی تفصیل یہ ہے کہ روزہ دار کی دعا قبول ہونے سے متعلق دو طرح کی روایات ہیں : پہلی وہ احادیث  جن میں مطلق روزہ دار کی دعا قبول ہونے کا ذکر ہے اور دوسری وہ احادیث جن میں خاص افطار کے وقت دعا قبول ہونے کا ذکر ہے اور دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ دونوں ہی مواقع پر دعا قبول ہونے کی بشارت ہے ،لہٰذا روزہ کی حالت اور وقتِ افطار ،دونوں وقت دعا کرنا بہتر ہے  ۔

   روزے میں دعا قبول ہونے سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’الصائم لا ترد دعوته‘‘ ترجمہ: روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔   (مسند امام احمد ، مسند ابی ھریرہ ، ج16، ص148، مؤسسۃ الرسالۃ)

   ایک موقع پر ارشاد فرمایا : ’’ثلاث دعوات لا ترد: دعوة الوالد، ودعوة الصائم، ودعوة المسافر‘‘ترجمہ: تین دعائیں رد نہیں کی جاتیں، والد کی دعا ، روزہ دار کی دعا ، مسافر کی دعا ۔  (السنن الکبری ،ج3، ص481، دار الکتب العلمیۃ)

   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ثلاث لا ترد دعوتهم، الإمام العادل، والصائم حتی يفطر، ودعوة المظلوم‘‘ترجمہ: تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ، عادل امام ، روزہ دار کی دعا افطار  کرنے تک اور مظلوم کی دعا ۔(ترمذی ،ابواب صفۃ الجنۃ ، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ الخ، ج2، ص79، مطبوعہ کراچی)

   خاص افطار کے وقت قبولیت دعا سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’إن للصائم عند فطره لدعوة ما ترد ‘‘ ترجمہ: روزہ دار کے لیے افطار کے وقت ایسی دعا ہے ،جسے رد نہیں کیا جاتا ۔(ابن ماجہ ،کتاب الصیام ، باب فی الصائم ، ج1، ص557 ، بیروت)

   نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’للصائم عند إفطاره دعوة مستجابة‘‘ ترجمہ: روزہ دار کے لیے افطار کے وقت ایک مقبول دعا ہے ۔ (مسند الطیالسی ،احادیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، ج4، ص20، دار ھجر)

   روزہ دار کے دن بھر دعا کرنے سے متعلق علامہ نووی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’يستحب للصائم أن يدعو في حال صومه بمهمات الآخرة والدنيا له ولمن يحب وللمسلمين لحديث أبي هريرة قال :’’ قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ثلاثة لا ترد دعوتهم الصائم حتى يفطر والإمام العادل والمظلوم ‘‘ رواه الترمذي وابن ماجه قال الترمذي حديث حسن وهكذا الرواية حتى بالتاء المثناة فوق فيقتضي استحباب دعاء الصائم من أول اليوم إلى آخره لأنه يسمى صائما في كل ذلك‘‘ترجمہ: روزہ دار کے لیے مستحب ہے کہ روزے کی حالت میں دنیا و آخرت کے اہم امور ، اپنے اور اپنے پیاروں اور مسلمانوں کے لیے دعا کرے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی : روزہ دار یہاں تک کہ افطار کرے ، عادل امام اور مظلوم ۔ اسے ترمذی و ابن ماجہ نے روایت کیا ، امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ،  یہ روایت  حتی  کے ساتھ اسی طرح ہے ۔یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ روزہ دار کے لیے  دن شروع ہونے سے ختم ہونے تک دعا کرنا مستحب ہے ،کیونکہ اس پورے وقت میں وہ روزہ دار ہے ۔   (المجموع للنووی ، کتاب الصیام ، ج6، ص375، دار الفکر ، بیروت )

   علامہ عزیزی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’قال الدميري يستحب للصائم أن يدعو في حال صومه بمهمات الآخرة والدنيا له ولمن يحب وللمسلمين لهذا الحديث‘‘ترجمہ: علامہ دمیری فرماتے ہیں : روزہ دار کے لیے مستحب ہے کہ روزے کی حالت میں دنیا و آخرت کے اہم کاموں اور اپنے لیے ، جن کے لیے دعا کرنا پسند کرے  اور عام مسلمانوں کے لیے دعا کرے ، اس حدیث کی وجہ سے ۔ (السراج المنیر ، ج2، ص199، دارالنوادر)

   خاص افطار کے وقت دعا کیوں قبول ہوتی ہے؟ اس تعلق سے علامہ حسین بن محمود مظہری حنفی  علیہ الرحمۃ (متوفی 727ھ)، علامہ محمد بن عبد اللطیف المعروف بابن فرشتہ علیہ الرحمۃ (متوفی 854 ھ)، اور علامہ ابو الحسن علی بن محمد قاری علیہ الرحمۃ (متوفی 1014 ھ) فرماتے ہیں:واللفظ للاول:’’ اعلم أن سرعة قبول الدعاء إنما تكون لصلاح الداعي أو لتضرعه في الدعاء، و’’الصائم‘‘ يقبل دعاؤه لأنه فرغ من عبادة محبوبة إلى اللہ تعالى، وهي الصوم كما قال رسول اللہ  عليه السلام  حكاية عن اللہ تعالى أنه قال :’’الصوم لي‘‘ ترجمہ : جان لو کہ جلدی دعا قبول ہونا دعا کرنے والے کی نیکی یا دعا میں گڑگڑانے کی وجہ سے ہے ۔روزہ دار کی دعا اس وجہ سے قبول ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی محبوب عبادت روزے سے فارغ ہوا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا :اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، روزہ میرے لیے ہے ۔(المفاتیح ، ج3، ص 131، دار النوادر) (شرح مصابیح لابن ملک ، ج3، ص80، ادارۃ الثقافۃ الاسلامیۃ)(مرقاۃ المفاتیح ، ، ج4، ص1534، دار الفکر )

   روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے اور وقت افطار خاص قبولیت کا وقت ہے ،چنانچہ قبولیت دعا کے مواقع میں فضائل دعا میں ہے :’’ہفتم:روزہ دار۔    قال الرضاء: خصوصاً وقتِ افطار۔‘‘ (فضائل دعا ، ص220، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (2) دعا کی قبولیت میں فرض و نفل روزوں کی کوئی تقسیم نہیں ۔فرض اور نفل ، دونوں روزہ رکھنے والوں کو قبولیت دعا کی بشارت حاصل ہو گی ۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :

1.             احادیث مبارکہ میں مطلق روزے دار کی دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، کسی حدیث میں فرض یا نفل روزہ دار کی دعا قبول ہونے کی تخصیص تلاش کرنے کے باوجود نہیں مل سکی ۔

2.             علمائے کرام نے دعا قبول ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا کہ روزہ اللہ تعالی کا پسندیدہ کام ہے اور یہ علت فرض و نفل ، دونوں قسم کے روزوں میں برابر پائی جاتی ہے ۔

3.             دعا قبول ہونے کے مواقع کو بیان کرتے ہوئے علمائے کرام نے نفل و فرض روزوں کی تخصیص کو بیان نہیں کیا ۔

4.             علماء نےنماز استسقا سے پہلے روزے رکھنے اور روزے کی حالت میں دعا کرنے کو قبولیت کی امید والے اسباب میں ذکر فرمایا ہے ، جو  اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ نفلی روزہ بھی دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔

   لہذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نفل روزہ رکھنے والے کی دعا بھی قبول ہوتی ہے ،اگر فرض یا نفل روزہ دار کی تخصیص ہوتی تو ضرور بیان کی جاتی ۔

   علامہ ابو الخیر محمد بن محمد ابن الجزری علیہ الرحمۃ قبولیت دعا کے مواقع  میں نفل و فرض کی تقسیم کے بغیر  فرماتے ہیں:’’والصائم حین یفطر‘‘ترجمہ: اور روزہ دار افطار کے وقت (دعا کرے تو مقبول ہے)(حصن حصین ،الذین یستجاب الخ ، ص32، المکتبۃ العصریۃ)

   نماز استسقاسے پہلے تین روزے رکھنے اور دعا کی قبولیت سے متعلق امام ابو یحیی زکریا علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ’’يستحب أن يأمرهم الإمام بصيام ثلاثة أيام متتابعة مع يوم الخروج؛ لأنه معين على الرياضة والخشوع وروى الترمذي عن أبي هريرة خبر «ثلاثة لا ترد دعوتهم الصائم حتى يفطر والإمام العادل والمظلوم‘‘ترجمہ: امام کے لیے مستحب ہے کہ نماز استسقاکے لیے نکلنے سے پہلے تین لگاتار روزے رکھنے کا حکم دے، کیونکہ روزے ریاضت و خشوع کے لیے مددگار ہیں اور ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ، روزہ دار یہاں تک کہ افطار کرے ، عادل امام اور مظلوم ۔(اسنی المطالب ، کتاب صلاۃ الاستسقاء ، ج1، ص289، دار الکتاب الاسلامی)

     بہار شریعت میں ہے:’’استسقا کے ليے پرانے یا پیوند لگے کپڑے پہن کرتذلل وخشوع و خضوع و تواضع کے ساتھ سَر برہنہ پیدل جائیں ۔۔۔ تین دن پیشتر سے روزے رکھیں اور توبہ و استغفار کریں ۔۔۔ غرض یہ کہ توجہ رحمت کے تمام اسباب مہیّا کریں۔‘‘(بھار شریعت ، ج1، ص793، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم