Taraweeh Parhane Ki Wajah Se Roza Chorna Kaisa?

تراویح پڑھانے کی وجہ سے روزہ چھوڑنا کیسا ؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2786

تاریخ اجراء:11رجب المرجب 1444ھ/03 فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارےمیں کہ زید حافظ قرآن ہے،صحت مند ہے، روزہ رکھنے پر قادر ہے،لیکن اس کا کہنا ہے کہ میں نے تراویح پڑھانی ہے اور  میری کیفیت اس طرح ہے کہ میں روزہ رکھ کردن کے وقت قرآن پاک نہیں پڑھ سکتا ۔ روزہ رکھ کر بھوک پیاس کی وجہ سے منزل پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے  تراویح  کی نماز میں ختم قرآن نہیں ہو پائے گا۔کیا  مجھے اجازت ہے کہ میں رمضان کےمہینے میں روزہ نہ رکھوں اور بعد میں رکھ لوں؟ کیا تراویح پڑھانے کی خاطر مجھے روزہ نہ رکھنے کی اجازت مل سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    زید کا روزہ چھوڑنے کےلیے تراویح پڑھانے کا عذرہرگز ہرگز درست نہیں ہے ۔ہر سال ہزاروں حافظ قرآن تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں اور الحمد للہ وہ روزے بھی رکھتے ہیں،نیز  وہ اپنی منزل کی دُہرائی بھی روزے کی ہی حالت میں کرتے ہیں، جون جولائی کے سخت گرم موسم میں بھی حفاظ کرام روزے رکھ کر تراویح کی تیاری کرتے ہیں۔ لہذا زید کو تراویح پڑھانے کی خاطر روزہ چھوڑنا ہرگز ہرگز جائز نہیں، کیونکہ روزہ فرض ہے اور تراویح کی نماز میں قرآن پاک کا ختم کرنا سنت ہے۔ سنت کی خاطر فرض چھوڑنا ہرگز ہرگز جائز نہیں، ایسا کرنا سخت گناہ کبیرہ ہے۔ ایسا شخص فاسق و فاجر،گناہ کبیرہ کا مرتکب اور دردناک عذاب کا حقدار ہے۔اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے تراویح پڑھانا،ممکن نہ ہو، تو تراویح نہ پڑھائے،بلکہ کسی دوسرے حافظ صاحب کی اقتدا میں تراویح ادا کرلے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو اپنی الگ سے ادا کرلے، لیکن روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ روزہ تو  فرض نماز کی ادائیگی کی خاطر  چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ حکم شرع یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے فرض نماز کےلیے قیام کرنا ممکن نہ ہو، تو پھر نماز بیٹھ کر پڑھے، لیکن روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب روزے کے مقابل فرض نماز کا یہ حکم ہے، تو تراویح کی خاطر روزہ چھوڑنے کی اجازت کس طرح ہو سکتی ہے؟

    روزے کی فرضیت کے متعلق اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے: ﴿  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۙ ترجمہ کنزالایمان:’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔‘‘(پارہ2، سورۃ البقرہ، آیت 183)

    روزے کی فرضیت معلوم کرنے کےلیے ایک اعرابی شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ۔ اس کا سوال اور اس کا جواب نقل کرتے ہوئے بخاری شریف میں ہے:”قال: اخبرني ما فرض اللہ علی من الصيام؟ فقال:شهر رمضان الا ان تطوع شيئا“ یعنی اس اعرابی نے عرض کی کہ مجھے فرض روزےکے متعلق ارشاد فرمائیے، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہیں، اس کے علاوہ دیگر روزے نفل ہیں۔(الصحیح للبخاری،جلد 3،  صفحہ24، حدیث1891، دار طوق النجاۃ)

    اسی طرح کی ایک حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے عمدۃالقاری میں ہے:”الثالث: ان الصوم ايضا ركن من اركان الاسلام، وهو فی كل سنة شهر واحد“ یعنی اس حدیث پاک سے تیسرا حکم یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزہ بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور وہ سال میں ایک ماہ کے روزے ہیں۔(عمدۃ القاری، جلد1، صفحہ419،مطبوعہ  پشاور)

    تراویح کی نماز کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے: ”ونفس التراويح سنة على الاعيان عندنا ۔۔۔ والجماعة فيها سنة على الكفاية “ یعنی تراویح کی نماز سنت عین ہے اور تراویح کی جماعت سنت کفایہ ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ116،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے: ” تراویح مرد و عورت سب کے ليے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے،  اس کا ترک جائز نہیں۔“ (بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ688، مکتبۃ المدینہ)

    تراویح کی نماز میں ایک بار ختم قرآن سنت ہے۔ جیسا کہ نورالایضاح میں ہے: ”وسن ختم القرآن فيها مرة في الشهر على الصحيح“ یعنی تراویح کی نماز میں ایک ختم قرآن سنت ہے، یہی صحیح قول ہے۔(نورالایضاح، صفحہ216، مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    تراویح کی نماز میں ختم قرآن کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”تراویح میں پورا کلام اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنت مؤکدہ ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ458، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    فرائض چھوڑ کر نفلی عبادت میں مشغول ہونےوالے شخص کے متعلق ایک حدیث پاک ہے: ”عن علی قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: يا علی ان مثل المصلی الذی لا يتم صلاته كمثل حبلى حملت فلما دنا نفاسها اسقطت فلا هی ذات حمل ولا هي ذات ولد ومثل المصلي مثل التاجر لا يخلص له ربحه حتى ياخذ راس ماله كذلك المصلي لا تقبل له نافلة حتى يؤدي الفريضة“ یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے علی وہ نمازی جو اپنی نماز مکمل ادا نہیں کرتا،اس کی مثال اس حاملہ عورت جیسی ہے،جس کا وقت ِولادت قریب آیا، تو اس نے اپنا بچہ گرا دیا، اب نہ وہ حاملہ ہے اور نہ کسی بچے  کی ماں۔ نمازی کی مثال تاجر جیسی ہے کہ تاجر اس وقت تک نفع حاصل نہیں کرسکتا، جب تک اپنا راس المال (Capital)محفوظ نہ رکھے۔ اسی طرح  نمازی جب تک فرائض ادا نہ کرلے، اس وقت تک اس کے نوافل قبول نہیں ہوتے۔(شعب الایمان، جلد4، صفحہ558، حدیث3015،مطبوعہ ھند)

    بدائع الصنائع میں ہے: ”لا يجوز ترك الفرض لاقامة السنة“ یعنی سنت ادا کرنے  کی خاطر فرض چھوڑنا ، جائز نہیں ہے۔(بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ264، بیروت)

    فتاوی رضویہ میں ہے: ” جوفرض چھوڑ کر نفل میں مشغول ہو، حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود قرارپایا۔“(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ648، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی اسی طرح کا سوال ہوا جس کاجواب آپ نے تقریبا گیارہ صفحات پر  بیان فرمایا جس میں قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور کتب فقہیہ سے تراویح پڑھانے کےلیے روزہ چھوڑنے  کی سخت وعیدیں بیان کی اور اس فعل کو ناجائز و حرام کہا۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: تراویح میں قرآن پاک ختم کرنا سنت ہے اور روزہ رکھنا فرض عین ہے اور یہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ سنت کی خاطر فرض عین کو چھوڑ دیا جائے۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو، تو اب نماز بیٹھ کر پڑھے، روزہ چھوڑنے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔اگر بالفرض قرآن پا ک کی زیادہ تلاوت کرنے سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے، تو اب زیادہ قرآن پڑھنا ہی اس کےلیے جائز نہیں۔اسی طرح اگرروزہ رکھنے کی وجہ سے تراویح پڑھانا،ممکن نہیں، تو اب نہ پڑھائے،بلکہ کسی اور کی اقتدا میں تراویح پڑھ لے۔ اگر  جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کی بھی طاقت نہ ہو، تو اب اکیلے بیس  رکعت تراویح پڑھ لے، لیکن روزہ ہرگز ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔خلاصہ کلام کےطور پر اس فتوی کے آخر میں امام اہلسنت  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”بالجملہ ایں کسے باجماع علما فاسق و فاجر و مرتکب کبیرہ و مستحق عذاب الیم وخزی عظیم است“ یعنی ایسا شخص بالاتفاق فاسق، فاجر، گناہ کبیرہ کا مرتکب، دردناک عذاب اور بہت بڑی ذلت کا مستحق ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ340، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    نوٹ: مزید تفصیل کےلیے فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ331 تا 344 مطالعہ فرمائیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم