12 Tarikh Ki Rami Se Pehle Tawaf e Wida Karne Ka Hukum

بارہویں کی رمی سے پہلے طوافِ وداع کرنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2814

تاریخ اجراء:18ذوالحجۃالحرام1445 ھ/25جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص نے دس ذو الحجۃ الحرام کو دسویں کی رمی و قربانی کی اور حلق کروا کر  حالتِ احرام سے نکل گیا،پھر گیارہ ذو الحجۃ الحرام کو گیارہویں کی رمی کی اور اسی رات اس نے طواف زیارت کرلیا اور اس کے بعد حج کی سعی بھی کرلی،پھر چونکہ اسے ملازمت والی کمپنی کی طرف سے اسی دن یا اگلے دن واپس بلائے جانے کا امکان تھا تو اس نے اسی رات طواف زیارت و حج کی سعی کرنے کے بعد طواف وداع کی نیت سے ایک اور طواف کرلیا ،پھر وہ اپنے کیمپ واپس چلا گیا اور بارہویں تاریخ کو بارہویں کی رمی کی اور کمپنی کے بلانے پر واپس کمپنی چلا گیا،تو شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس شخص نے بارہویں کی رمی سے پہلے جو طواف وداع کیا تھا ،وہ درست ہوگیا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً یہ یاد رہے کہ طوافِ وداع اس حاجی پر واجب ہوتا ہے جو آفاق یعنی میقات کے باہر سے حج کے لئے آئے،اور جو مکہ مکرمہ یا میقات کے اندر ہی رہنے والا ہو،اس حاجی پر طوافِ وداع واجب نہیں ہوتا،البتہ ان کے لئے طوافِ وداع کرنا مستحب ہوتا ہے۔

   تو اگر مذکورہ شخص آفاق یعنی میقات کے باہر سے حج کے لئے آیا تھا تو اس کا واجب طوافِ وداع درست ادا ہوگیا کیونکہ طوافِ وداع کا وقت،طوافِ زیارت کے بعد ہوتا ہے ،طوافِ زیارت کے بعد جو بھی طواف کیا جائے وہ طوافِ وداع ہوتا ہے اگرچہ یومِ نحر یعنی دسویں تاریخ کو ہی کر لیا جائے ،لہذا جب مذکور شخص نے طوافِ زیارت کے بعد طوافِ وداع کیا تو اس کا طوافِ وداع درست ادا ہوگیا اگرچہ اس نے بارہویں تاریخ کی رمی سے پہلے کیا تھا،البتہ طوافِ وداع کی ادائیگی کا مستحب وقت وہ ہے جب حاجی مکہ مکرمہ سے نکلنے کا ارادہ کرے ،لیکن اگر کوئی اس سے پہلے بھی کرلیتا ہے تب بھی ادا ہو جائے گا۔

   طوافِ وداع کس پر واجب ہے؟اس کے متعلق لباب و شرح لباب میں ہے”طواف الوداع (ھو واجب علی الحاج الآفاقی )ای دون المکی و المیقاتی“ترجمہ:طوافِ وداع آفاقی حاجی پر واجب ہے،مکی و میقاتی حاجی پر واجب نہیں۔(لباب و شرح لباب،باب طواف الصدر،ص 355،مطبوعہ سعودیہ)

   در مختار میں ہے”(وهو واجب إلا على أهل مكة) ومن في حكمهم فلا يجب بل يندب“ترجمہ:اہل مکہ اور جو ان کے حکم میں ہیں یعنی میقات کے اندر رہنے والے،ان پر طوافِ وداع واجب نہیں ،بلکہ ان کے لئے طوافِ وداع مستحب ہے۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الحج،ج 2،ص 523،دار الفکر،بیروت)

   طوافِ وداع کے وقت کے متعلق لباب و شرح لباب میں ہے”(واما وقتہ فاولہ بعد طواف الزیارۃ فلو طاف بعد الزیارۃ طوافاً) ای ای طواف کان (یکون عن الصدر)۔۔۔(ولو فی یوم النحر)۔۔۔(ولا آخر لہ) ۔۔۔(ویستحب ان یجعلہ) ای طواف الصدر (آخر طوافہ عند السفر )ای واقعا عند العزم علی خروجہ وارادۃ مباشرۃ سفرہ “ترجمہ:طوافِ صدر کا وقت :طوافِ صدر کا اول وقت طواف زیارت کے بعد ہے ،تو کسی نے طوافِ زیارت کے بعد کوئی بھی طواف کیا تو وہ طواف صدر ہی واقع ہوگا اگرچہ یوم نحر کو کرے ، اور اس کا آخری وقت مقرر نہیں،اور حاجی کے مستحب ہے کہ وہ اپنے سفر کا  آخری طواف،طوافِ صدر کرے یعنی جب مکہ مکرمہ سے نکلنے و سفر کا ارادہ کرے تو طواف ِ صدر کرے۔(لباب و شرح لباب،باب طواف الصدر،ص 355،356،مطبوعہ سعودیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم