12 Zilhajj Ki Rami Zohar Ka Waqt Shuru Hone Se Pehle Karne Ka Hukum

12 ذوالحجہ  كی رمی ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے کرنا

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1801

تاریخ اجراء: 17ذوالحجۃالحرام1444 ھ/6جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی حاجی نے 12  كی رمی ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے کرلی یعنی 11 بجے کرلی اور پھر واپس مکہ مکرمہ اپنے ہوٹل آ گیاتو    اب اس کے لئے کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گیارہ اور بارہ ذو الحجہ کی رمی کاوقت ،ظہر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اگلے دن کی فجر کا وقت شروع ہونے تک ہوتا ہے البتہ بلا عذرسورج غروب ہونے کے بعد رمی کرنا مکروہ ہے۔لہذا اگر کسی حاجی نے 12کی رمی،ظہر کا وقت شروع ہونےسے پہلے کرلی تواس کی وہ  رمی ادا  ہی نہیں ہوئی، اُس پر لازم ہے کہ اگلے دن یعنی13ذو الحجہ کی  فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے پہلے رمی کرلے،اگر ایسا کرلیتا ہے تو اُس پر دم لازم  نہیں ہوگا اور اگر اس نے  12 کی رمی اپنے وقت میں نہیں کی اور وقت ختم ہوگیا تواب  اس  شخص پر 12 کی رمی کی قضا اور دم، دونوں لازم ہیں  ،اور  رمی کی قضا کا وقت 13ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک ہے،لہذا13کی غروب سے پہلے اُس رمی کی قضا   کرلے، اور اگر رمی کی قضا نہیں کی اور 13ذو الحجہ کا غروب آفتاب ہوگیا تو اب قضا ساقط ہوگئی اور دم باقی ہے وہ ادا کرنا ہوگا۔

   گیارہ اور بارہ کی رمی کے وقت کے متعلق،علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’وقت رمی الجمار الثلاث فی الیوم الثانی والثالث من ایام النحر بعد الزوال فلا یجوز قبلہ فی المشھور، والوقت المسنون فیھما یمتد  من الزوال الی غروب الشمس،ومن  الغروب الی الطلوع وقت مکروہ‘‘ترجمہ:ایام نحرکےدوسرے اور تیسرے دن، تینوں جمروں کی رمی کا وقت زوال کے بعد  سے شروع ہوتا ہے لہذامشہور قول کے مطابق زوال سے پہلے رمی  جائز نہیں،اور ان دونوں دنوں میں رمی کا مسنون وقت زوال سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب سے اگلے دن کی طلوع فجر تک مکروہ وقت ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، مطلب:فی رمی الجمرات الثلاث، جلد3،صفحہ619،دار المعرفۃ، بیروت)

   اگر کوئی شخص کسی دن کی رمی ،اس کے وقت میں ادا نہ کرے تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں،جیساکہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(واذا طلع الفجر فقد فات وقت الاداء وبقی وقت القضاء الی آخر ایام التشریق فلو أخرہ)أی الرمی(عن وقتہ)أی المعین لہ فی کل یوم (فعلیہ القضاء والجزاء)وھو لزوم الدم (ویفوت وقت القضاء بغروب الشمس  من الرابع)‘‘ترجمہ:اور جب فجر طلوع ہوگئی تو رمی کی ادائیگی کا وقت ختم ہوگیا اور اب ایام تشریق کے آخر(یعنی غروب آفتاب)تک قضا کا وقت باقی ہے،لہذا اگر  کسی نے رمی کو اس کےمعینہ وقت سے  مؤخر کیاجو ہر دن میں اس کیلئے مقرر کیا گیا تھا، تو ایسے شخص پر اُس رمی کی قضا اور کفارہ  یعنی دم کی ادائیگی لازم ہے اور قضا کا وقت چوتھے دن( یعنی 13ذو الحجہ)کے غروب آفتاب  سے ختم ہوجاتا ہے۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب رمی الجمار واحکامہ،فصل فی وقت الرمی فی الیومین،صفحہ267،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

      بہار شریعت میں ہے:’’  گیارہویں ،بارھویں(کی رمی) کا وقت آفتاب ڈھلنےسے صبح تک ہے مگر رات میں یعنی آفتاب ڈوبنے کے بعد مکروہ ہے ۔۔۔لہٰذا اگر پہلی تین تاریخوں ۱۰، ۱۱، ۱۲ کی رَمی دن میں نہ کی ہو تو رات میں کرلے پھر اگر بغیر عُذر ہے تو کراہت ہے، ورنہ کچھ نہیں اور اگر رات میں بھی نہ کی تو قضا ہوگئی، اب دوسرے دن اس کی قضا دے اور اس کے ذمہ کفارہ واجب اور اس قضا کا بھی وقت تیرھویں کے آفتاب ڈوبنے تک ہے، اگر تیرھویں کو آفتاب ڈوب گیا اور رَمی نہ کی تو اب رَمی نہیں ہوسکتی اور دَم واجب‘‘۔(بہار شریعت،ج01،حصہ6،صفحہ1146-1147،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم