13 Zul Hijjah Ki Rami Karne Ka Kya Hukam Hai?

تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرنے کا کیا حکم ہے؟

مجیب: محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1705

تاریخ اجراء: 14ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/03جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرنے کا کیا حکم ہے؟کیاحاجی پرتیرہ (13)ذو الحِجّہ کی رمی  کرنا    واجب ہوتاہے،اگر کسی نے نہیں کی تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حاجی پر تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرنا واجب نہیں ہوتا،البتہ اُس کیلئے افضل یہ ہے کہ بارہ ذو الحجہ کی رمی کرنے کے بعد منٰی میں ہی ٹھہرے اور تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرکےمکہ جائے،اوراگر کوئی شخص بارہ ذو الحجہ کی رمی کرنے کے بعد مکہ جانا چاہے تو  غروب آفتاب سے پہلے پہلے اختیار ہے کہ مکہ مکرمہ کو چلا جائے،اور اگر منٰی میں ہی غروب آفتاب ہوگیا تو اب اس کیلئےمنٰی میں رات گزارنا اور تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرنا سنت ہے ،لہذا اس صورت میں اگر کوئی شخص بغیر رمی کئے چلا جائے تو اس پر کچھ لازم تو نہیں ہوگا لیکن ایسا شخص  سنت کے ترک کی وجہ سے اساءت کا مرتکب ہوگا۔ہاں ایک صورت ایسی ہے جس میں تیرہ ذو الحجہ کی رمی کرنا واجب ہوجاتا ہے ،اُس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص منٰی میں  ہی رہا اور تیرہ ذو الحجہ کی صبح صادق ہوگئی تو    ایسی صورت میں اُس         پر تیرہ     ذو الحجہ کی رمی کرنا واجب ہوجائے گا اور اب اُس کیلئے بغیر رمی کئے منٰی سے جانا جائز نہیں ہوگا،اگر جائے گا تو دم واجب ہوگا۔ 

   لباب المناسک اور اسکی شرح میں ہے:’’(واذا رمی واراد أن ینفر فی ھذا الیوم من منی الی مکۃ جاز بلا کراھۃ والأفضل  أن یقیم ویرمی فی الیوم الرابع)أی لفعلہ صلی اللہ علیہ وسلم( وإن لم یقم  نفر قبل غروب الشمس  )‘‘ترجمہ:اور جب کوئی شخص بارہ ذو الحجہ کی رمی کرلے اور اس دن منی سے مکہ جانا چاہے تو  اس کیلئے مکہ چلا جانا بلا کراہت جائز ہے اور افضل یہ ہے کہ منی میں ٹھہرے اور چوتھے دن کی رمی کرے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا،اور اگروہ ٹھہرنا       نہ چاہے تو غروب آفتاب سے پہلے چلا جائے۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب رمی الجمار واحکامہ،صفحہ 343-344،مطبوعہ :مکۃ المکرمۃ)

   البحر العمیق میں ہے:’’فان لم ینفر حتی غربت الشمس،فانہ یکرہ لہ أن ینفر،ویسن لہ المبیت بمنی، والرمی فی الیوم الثالث باتفاق العلماء...فان لم ينفر حتي طلع الفجر من اليوم الثالث من ايام التشريق،فانہ یجب  علیہ أن یرمی الجمرات الثلاث باتفاق العلماء،ویجب علیہ دم اذا ترکہ‘‘ ملتقطاً ۔ترجمہ: اگر نہ گیا اور غروب آفتاب ہوگیا تو ایسی صورت میں( چوتھے دن کی رمی کئے بغیر)منی سے  جانا مکروہ ہےاوراب  اُس کیلئے منی میں رات گزارنا اور تیرہ کی رمی کرنا بالاتفاق سنت ہے اور اگر منی سے نہ گیا یہاں تک کہ تیرہ ذو الحجہ کی صبح صادق منی میں ہوگئی ،تو ایسی صورت میں اُس پر  تینوں جمروں کی رمی کرنا  بالاتفاق واجب ہوگیااور  اگر رمی کو ترک کیا تو اس پر دم واجب ہوگا۔(البحر العمیق،فصل فیما یفعلہ الحاج ۔۔الخ،صفحہ1889-1890، مؤسسۃ الریان)

                   بہار شریعت میں ہے" بارھویں   کی رَمی کرکے غروب آفتاب سے پہلے پہلے اختیار ہے کہ مکہ معظمہ کو روانہ ہو جاؤ مگر بعد غروب چلا جانا معیوب۔ اب ایک دن اور ٹھہرنا اور تیرھویں   کو بدستور دوپہر ڈھلے رَمی کرکے مکہ جانا ہوگا اور یہی افضل ہے۔۔۔۔ اور اگر تیرھویں   کی صبح ہوگئی تو اب بغیر رَمی کیے جانا جائز نہیں  ، جائے گا تو دَم واجب ہوگا ۔"      (بہار شریعت،ج1،حصہ 06،ص1146،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم