بارگاہِ رسالت میں لوگوں کے سلام پہنچانا

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالحجۃالحرام1440ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیا نِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حج و عمرہ پر جاتے ہوئے بعض دوست احباب کہہ دیتے ہیں کہ میرا سلام نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں پیش کردینا تو کیا جب میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دوں تو ان کی طرف سے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں سلام پیش کرنا مجھ پر واجب ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ میں اگر آپ جواب میں اس بات کا التزام کر لیتے ہیں کہ ہاں میں آپ کا سلام پیش کردوں گا تو یہ سلام آپ کے پاس امانت ہے اس امانت کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کرنا آپ پر واجب ہو گا اور اگرآپ اس بات کا التزام نہیں کرتے یعنی جواب میں یہ نہیں کہتے کہ ہاں میں آپ کا سلام پیش کردوں گا تو آپ پر سلام پیش کرنا واجب نہیں کیونکہ سلام پہنچانا اس وقت واجب ہوتا ہے کہ جب پہنچانے والا اپنے اوپر سلام پہنچانے کو قبول کرکےلازم کرلے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم