Halat e Ahram Mein Belt Wali Chatri Pehana Kaisa?

حالتِ احرام میں بیلٹ والی چھتری پہننا کیسا ؟

مجیب:مولانامحمد ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  UK-10

تاریخ اجراء: 24ذوالقعدۃالحرام1440ھ/29جولائی2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا احرام میں ا یسی چھتری سر پر لے سکتے ہیں ، جو سر پر تو نہیں لگتی ، لیکن اس کے ساتھ جڑی ہوئی  ایک لچکداربیلٹ سرکے چاروں طرف گھومتی ہوئی سر کو  لگی رہتی ہے؟ اس بیلٹ کی چوڑائی تقریبا ایک ڈیڑھ انچ ہےاور کیا اس کو پہننے پر کوئی کفارہ بھی لازم آئے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مُحرم کےلیے سوال میں بیان کردہ چھتری استعمال کرنا ، جائز نہیں ہے ، کیونکہ اس کی بیلٹ  سر کے چاروں طرف سر کو لگی رہتی ہے اور اتنا حصہ سر کا چھپ جاتا ہے ، حالانکہ احرام کی حالت میں سر کو چھپانا ، جائز نہیں ہے۔ظاہر یہی ہے کہ ایسی بیلٹ سے سر کاچوتھائی سے کم حصہ چھپے گا ، لہٰذا اگر پورا دن یا پوری رات تک پہنی تو صدقہ لازم ہوگا اور اگر پورے دن  یا پوری رات سے کم وقت کے لیے پہنی ، تو کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا ، البتہ  مکروہ تحریمی و گناہ  ہونے کی وجہ سے توبہ لازم ہوگی۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ یہ بیلٹ سرپر لگانا ایسے ہی ہے جیسے سرپر پٹی باندھنااور احرام کی حالت میں (بلا عذر شرعی)سر پر پٹی باندھناناجائز وممنوع ہے اور بعض صورتوں میں کفارے کا بھی حکم ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں :”لا يعصب المحرم رأسه بسير، ولا خرقة“ترجمہ: محرم اپنے سرپر  نہ چمڑے کے تراشے سے پٹی باندھے اور نہ کپڑےکے ٹکڑے  سے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الحج، المحرم یعصب راسہ، جلد3، صفحہ184، مطبوعہ ریاض)

       مبسوط سرخسی میں ہے:” ويكره له أن يعصب رأسه فإن فعل يوما إلى الليل فعليه صدقة؛ لأنه غطى بعض رأسه بالعصابة وهو ممنوع من تغطية الرأس إلا أن ما غطى به جزء يسير من رأسه فتكفيه الصدقة لعدم تمام جنايته“ترجمہ:محرم کے لئے مکروہ ہے کہ وہ اپنے سر پر پٹی باندھے ، اگر اس نے ایک پورا دن، یعنی رات ہونے تک پٹی باندھی تو اس پر صدقہ ہے کیونکہ اس نے پٹی کے ذریعے سر کے بعض حصے کو چھپایا ہےحالانکہ اسے سر  چھپانا ممنوع ہے ، البتہ چونکہ سر کا جتنا حصہ چھپا یا ، وہ تھوڑا سا ہے اس لئے صدقہ کافی ہے ، جنایت کامل نہ ہونے کی وجہ سے۔(المبسوط ،کتاب المناسک، باب ما یلبسہ المحرم،جلد4،صفحہ127، دار المعرفہ، بیروت)

   فتح القدیر میں ہے:” لو عصب المحرم رأسه بعصابة أو وجهه يوما أو ليلة فعليه صدقة، إلا أن يأخذ قدر الربع “ترجمہ: اگر محرم نے سر یا چہرےپر پٹی باندھی ایک دن یا ایک رات تک تو اس پر صدقہ لازم ہے ، الّا یہ کہ سر کے چوتھائی حصے کو ڈھانپ لے (کہ پھر دم لازم ہوگا۔)(فتح القدير،کتاب الحج، باب الجنایات، جلد3، صفحہ31، دار الفکر، بیروت)

   رد المحتار میں نہر اور اس میں خانیہ کے حوالے سے ہے:” ويكره له تعصيب رأسه ولو فعل يوما وليلة كان عليه صدقة. اهـ.“ ترجمہ: اورمحرم کے لئے سر پر پٹی باندھنا مکروہ ہے ، اگر اس  نے ایک دن یا ایک رات تک ایسا کیا تو اس پر صدقہ ہے۔(رد المحتار،کتاب الحج، فصل فی الاحرام، جلد2، صفحہ488، دار الفکر، بیروت)

   اس کے علاوہ یہ مسئلہ  البحر الرائق(3/ 9)، البحر العمیق(2/801)اور بدائع (2/ 187) وغیرہ میں بھی ہے ۔

       سر چھپانے پر کتنا کفارہ ہوگا، اس کی تفصیل و تحقیق بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:”فالذي تحرّر مما تقرّر أنّ الكمال في المستور -أعني: الرأس والوجه- بالربع وفي المستور فيه -أعني: اليوم أو الليلة- باستيعاب المقدار فإذا وجد الكمال فيهما فدم أو في أحدهما فصدقة أو لا في شيءٍ منهما فلا شيء إلاّ الكراهة، وهي على ما استظهر ط تحريمية “یعنی بیان کردہ تقریر سے یہ بات منقح ہوئی کہ مستور یعنی سر اور چہرہ میں کمال جنایت چوتھائی حصہ چھپانے سے ہے اور مستور فیہ یعنی دن یا رات کے اعتبار سے کمال جنایت پورے وقت میں فعل پائے جانے سے ہے ، لہذا اگر ان دونوں اعتبار سے جنایت کامل ہوئی تو دم لازم ہوگا اور اگر ان میں سے ایک کے اعتبار سے جنایت کامل  ہوئی تو صدقہ لازم ہوگا اور اگر کسی ایک کے اعتبار سے بھی جنایت کامل نہ ہوئی تو کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگامگر کراہت لازم آئے گی اورصاحب طحطاوی کے استظہار کے مطابق یہ کراہت تحریمی ہے ۔(جد الممتار، کتاب الحج، باب الجنایات، جلد4، صفحہ324، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

   اشکال:یہ بیلٹ سر پر لگنا ممنوع نہیں ہونا چاہیے کہ لبس معتاد یا ستر معتاد نہیں۔

   جواب:ایسا ہرگزنہیں ، کیونکہ یہ بیلٹ لباس ناس (یعنی انسانوں کے پہننے)میں سے ہے اور یہ  بیلٹ سرپر لگانا عرفا لبس و پہننا ہی شمار کیا جاتا ہے ، لہٰذا یہ ما یقصد بہ التغطیۃ میں شامل ہو کر ممنوع  وناجائز ہی قرار پائے گااور فقہاء کرام نے  جن چیزوں کو سرپر اٹھانے کی اجازت دی اور فرمایا کہ ان سے تغطیہ مقصود نہیں ہوتا ، اس میں وہ چیزیں شمار کی ہیں ، جو لباسِ ناس میں سے نہیں ہیں اور ان کو سر پر اٹھا لیا جائے ، تو کوئی بھی پہننا یا سر چھپانا شمار نہیں کرتا ، بلکہ اس کا مقصود مطلق حمل (اٹھانا) یا کچھ اور ہوتا ہے ۔ جیسے طشت، برتن، پتھر ، شیشہ ، مٹی کے ڈھیلے وغیرہ۔

       بدائع الصنائع  اور البحر العمیق میں ہے :واللفظ للبدائع:” ولو حمل على رأسه شيئا فإن كان مما يقصد به التغطية من لباس الناس لا يجوز له ذلك؛ لأنه كاللبس، وإن كان مما لا يقصد به التغطية كإجانة، أو عدل بروضعه على رأسه فلا بأس بذلك؛ لأنه لا يعد ذلك لبسا، ولا تغطية “ترجمہ:اگر محرم نے  سر پر کوئی چیز اٹھائی تو اگر یہ چیز لباس ناس میں سے ایسی ہے جس سے تغطیہ (چھپانا) مقصود ہوتا ہے تو اس کا اٹھانا ، جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ لبس (پہننے ) کی طرح ہوگا اور اگر وہ ایسی چیز ہے جس سے تغطیہ مقصود نہیں ہوتا جیسے برتن  (جس میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں )یا گندم کی بوری  کہ ان کو اگر محرم اپنے سر پر رکھے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ لبس اور تغطیہ شمار نہیں  ہوگا ۔(بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل فی محظورات الاحرام، جلد2، صفحہ185، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   رد المحتارمیں  نہر اور اس میں خانیہ کے حوالے سے  ہے:” لو حمل المحرم على رأسه شيئا يلبسه الناس يكون لابسا، وإن كان لا يلبسه الناس كالإجانة ونحوها فلا “ترجمہ: اگر کسی محرم نے اپنے سر پر ایسی چیز اٹھائی جس کو لوگ پہنتے ہیں تو یہ  پہننے والا شمار ہوگا اور اگر لوگ اسے نہیں پہنتے جیسے کپڑے دھونے والا برتن یا اس طرح کی اور چیزیں تو  پھر وہ پہننے والا شمار نہیں ہوگا۔(رد المحتار،کتاب الحج، فصل فی الاحرام، جلد2، صفحہ488، دار الفکر، بیروت)

       المسالک لعلامۃ کرمانی میں ہے:”فان غطی  راسہ بشیء مما لا یلبسہ الناس عادۃ کاجانۃ او عدل او طاسۃ او مکتل وما اشبہ ذلک  فلا شیء علیہ لانہ لا یقصد بہ تغظیۃ الراس وانما یقصد بہ الحمل وغیرہ “ترجمہ: اگر  محرم نے کسی ایسی چیز سے سر کو چھپایا جس کو لوگ عادۃ نہیں پہنتے جیسے کپڑے دھونے والا برتن، بوری ، پیتل یا تانبے کا پانی پینے والا برتن، چیز ماپنے کا پیمانہ، یا اس طرح کی دوسری چیزیں تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا کیونکہ ان چیزوں سے سر چھپانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان سے مقصود اٹھانایا کچھ اور ہوتا ہے۔(المسالک فی المناسک، 1/711، شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ)

       جن چیزوں سے تغطیہ مقصود نہیں ہوتا ، اس کی مزید کچھ مثالیں لباب اور اس کی شرح میں یوں دی گئی ہیں:” (او حجر او مدر او صفر او حدید او زجاج او خشب ونحوھا ) ای من فضۃ و ذھب “ترجمہ: یا پتھر یا مٹی کے ڈھیلے یا  پیتل  یا لوہا یا شیشہ یا لکڑی یا اس طرح کی اور چیزیں جیسے چاندی اور سونا۔(المسلک المتقسط،باب الجنایات، صفحہ436، مؤسسۃ الریان)

       ان جزئیات سے یہ بات واضح  ہوتی ہے کہ جن چیزوں سے تغطیہ مقصود نہیں ہوتا ، ان میں اور اس بیلٹ میں نمایاں فرق ہے ، لہٰذا  بیلٹ کو ان  چیزوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم