Aurat Ka Cousin Ke Bete Ke Sath Umrah Par Jana

عورت کا کزن کے بیٹے کے ساتھ عمرہ پرجانا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2075

تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1445 ھ/16اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھے عمرہ پر جانا ہے ،کیا میں اپنی چچا زاد بہن کے 23 سالہ بیٹے کےساتھ عمرہ پر جاسکتی ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ اپنی چچا زاد بہن کے بیٹے کے ساتھ سفر نہیں  کر سکتیں ،کیونکہ وه آپ  کامحرم نہیں۔ جس طرح چچا زاد بھائی بہن آپس میں نامحرم ہوتے ہیں کہ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے شادی ہوسکتی ہے اسی طرح ان کی اولاد سے بھی ہوسکتی ہے  لہذا ان کی اولادبھی نامحرم ہوئی ۔ شریعت مطہر ہ میں کسی بھی عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی مسافت یعنی  92کلومیٹر کی مسافت پر واقع کسی جگہ جانا حرام ہے ، خواہ وہ سفر حج و عمرہ کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ہو ۔

   صحیح مسلم میں ہے:” عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاخر ان تسافر سفراً یکون ثلاثۃ ایام فصاعداً الا ومعھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا “ ترجمہ:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے ، اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے ، مگر  جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا اس کا کوئی محرم ہو ۔(الصحیح لمسلم ، باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ ، جلد 1 ، صفحہ 434 ، مطبوعہ کراچی  )

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ” عورت اگرچہ عفیفہ ( یعنی پاکدامن ) یا ضعیفہ ( یعنی بوڑھی ) ہو ، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا ، حرام ہے ۔ اگر چلی جائے گی ، گنہگار ہوگی ، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 706 ، 707 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے،خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا۔محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لئے اس عورت کا نکاح حرام ہے،خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو،جیسے باپ،بیٹا،بھائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو،جیسے رضاعی بھائی،باپ،بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی،جیسے خسر،شوہر کا بیٹا وغیرہ۔“ (بہار شریعت،جلد1،حصہ06،صفحہ 1044،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم