Croron Ki Zari Zameen Hai Lekin Hajj Ke Liye Naqad Raqam Nahi To Hajj Ka Hukum

کروڑوں زرعی زمین ہے، لیکن حج کے لئے نقد رقم نہیں تو حج کا حکم

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1663

تاریخ اجراء:24شوال المکرم1445 ھ/03مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگرحج کرنے کے لئے کسی مسلمان کے پاس کچھ رقم نقد موجود ہے اوراس کی بیوی بھی اپنا سونا دے رہی ہے کہ بیچ کر حج کے لئے رقم حاصل کر لے، لیکن پھر بھی اس کی مطلوبہ رقم کیش میں پوری نہیں ہورہی، کیا اس پر حج فرض ہوگا جبکہ مذکورہ شخص  ایسے زرعی رقبے کا مالک ہے جو کم سے کم 2 سے 3 کروڑ کا ہے،جس سے اس کو سالانہ آمدن ٹھیکے کے طور پر وصول بھی ہوتی ہے،لیکن رقم کا بندو بست ابھی نہیں ہےاور گھر والوں کے اخراجات کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عاقل بالغ، تندرست اور صاحبِ استطاعت شخص پر حج فرض ہوتا ہے، صاحب استطاعت وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس اتنا مال ہے کہ گھر سے چل کر مکہ مکرمہ پہنچے ، وہاں قیام کے اخراجات ، وہاں سے واپسی کے اخراجات اور جتنے دن حج پر لگیں گے ان ایام کا گھر والوں کا خرچہ اس کے پاس موجود ہو ، اور راستہ بھی پر امن ہو تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے۔جو شخص صاحبِ استطاعت نہ ہو اور وہ فرض حج کی یا مطلق حج کی نیت سے حج کر لے، تو اس کا فرض حج ادا ہو جاتا ہے۔

   اگر اس کے پاس رہائش سے ہٹ کر اتنی بڑی زرعی زمین موجود ہے کہ وہ اس کا کچھ حصہ بیچ کر حج کے تمام لازمی اخراجات ادا کرسکتا ہو اور اس کے بعد بھی اس کےپاس اتنی زمین بچ جائے گی کہ اس سے اپنے گھر کے اخراجات چلا سکتا ہو،تو اس پر زمین کا اتناحصہ بیچ کر حج پر جانا لازم ہوگا۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے:وإن كان صاحب ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، وإلا فلا.ترجمہ:  اگر وہ زمین کا مالک ہے تو دیکھا جائے گا کہ اس کے پاس اتنی زمین موجود ہے کہ اس میں سے اتنی مقدار بیچ کر جس سے زادِ راہ اور سواری ، نیز آنے جانے کے اخراجات اور اپنے عیال و اولاد کا نفقہ بقدرِ کفایت ادا کرنے کے بعد پیچھے اتنی زمین بچ جائے جس کے غلہ سے وہ زندگی گزار سکتا ہو تو اس پر حج فرض ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ (فتاوی ہندیہ، جلد1، صفحہ 218، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم