Dam Ki Adaigi Mein Takhir Karna Kaisa Hai ?

دم کی ادائیگی میں تاخیر کرنا کیسا ہے؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1872

تاریخ اجراء:16محرم الحرام1445ھ/04اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگرکسی کے اوپر حج یا عمرہ کے وقت دم لازم ہوا ،لیکن اس نے وہ دم فوراً ادا نہیں کیا بلکہ اپنے وطن واپس آکر ادا کیا تو کیا ایسی صورت میں اس کا وہ  دم قبول ہوگا؟اور یونہی دم ادا کئے بغیر جو باقی ارکان اس نے ادا  کئے،وہ قبول ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دم کے لازم ہوتے ہی فوراً اس کی ادائیگی کرنا واجب نہیں ہوتا،بلکہ اس میں تاخیر کی بھی اجازت ہے،لہذا اگر کوئی شخص   حج و عمرہ کے مکمل ہونے کے بعد دم ادا کرے یا اپنے وطن واپس آکر کسی کے ذریعےحرم میں دم کی ادائیگی کروادے تو ایسی صورت میں بھی اس کا وہ دم ادا ہوجائےگااور وہ گنہگار بھی نہیں ہوگا اور اس تاخیر سے اُس کے دیگر ارکان پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ  افضل یہ  ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے دم  کی ادائیگی کرکے اُسے اپنے ذمہ سے ساقط کردے۔نیز یہاں  اس بات کا خیال بھی  ضروری ہے کہ دم کی ادائیگی چونکہ حرم میں ہی ہونا ضروری ہے ، حرم کے علاوہ  کسی اور جگہ میں دم کی ادائیگی نہیں ہوسکتی،  لہذا جس پر دم لازم ہو اُسے چاہئے کہ وطن واپس ہونے سے پہلے  پہلے  دم ادا کردے کیونکہ وطن واپسی کے بعد عین ممکن ہے کہ کسی کے ذریعے حرم میں دم کی ادائیگی کی صورت نہ بن پائے۔

   دم کی ادائیگی فوری طور پر کرنا واجب نہیں ،جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح  میں ہے:” (اعلم أن الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی)وانما الفور بالمسارعۃ الی الطاعۃ والمسابقۃ الی اسقاط الکفارۃ افضل،لأن فی تاخیر العبادات آفات (فلایأثم بالتاخیر عن أو ل وقت الامکان ویکون مودیالا قاضیا فی أی وقت ادیٰ)لما سبق من ان امرہ لیس محمولاً علی فورہ (وانما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء ...والافضل تعجیل  اداء الکفارات “ ترجمہ:جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں البتہ  نیکی کے کاموں میں جلدی  اور کفاروں کو ساقط کرنے میں سبقت کرنا افضل ہے کیونکہ عبادات کی تاخیر میں آفات ہیں،(لیکن چونکہ فوری ادائیگی واجب نہیں)  لہذاادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا ،اور جس وقت بھی ادا کرے گا،ادا کرنے والا ہی کہلائے گا،قضا کرنے والا نہیں کیونکہ یہ بات بیان ہوچکی  کہ کفارہ کی ادائیگی کا حکم فوری  نہیں ۔ البتہ عمر کے آخری حصے میں جب  اسےظن غالب ہو جائے کہ اگر اب اس نے ادا نہ کیاتو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا توایسی صورت میں اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو گا اور اگر اس نے ادا نہ کیا اور مرگیا تو گنہگار ہوگااور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے ۔اور افضل یہ ہے کہ کفاروں کی ادائیگی میں جلدی کرے ۔(لباب المناسک مع شرحه،باب فی جزاء الجنایات وکفاراتھا، صفحه542، مکۃالمکرمۃ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم