Jis Par Dam Lazim Ho Aur Dam Dene Par Qadir Na Ho To Kya Hukum Hai?

جس پر دَم لازم ہو اور وہ دَم دینے پر قادر نہ ہو، تو کیا حکم ہے

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor 9968

تاریخ اجراء:14رمضان المبارک1440ھ/20مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے کسی مجبوری کےبغیر سلے ہوئے کپڑے پورے ایک دن تک پہنے رکھے ، مگر فقیر ہونے کے سبب دم دینے پر قادر نہیں ۔ کیا دم دینے کے لیے وہ قرض لے یا کسی سے مدد مانگے یا اس کے بدلے روزے رکھ لے یا فقط توبہ کر لینا کافی ہے ؟

سائل :صوفی اقبال ضیائی (مدینہ منورہ)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں زید پر توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ دم دینا بھی واجب ہے، اس کی بجائے روزے رکھنایا صدقہ دینا یا محض توبہ کر لینا کافی نہیں، کیونکہ یہ جرم اختیاری ہے اور جرمِ اختیاری کے ارتکاب پر جہاں دم واجب ہو ، وہاں دم دینا ہی لازم  ہوتا ہے ، اس کے بجائے صدقہ یا روزے  رکھنا کفایت نہیں کرتا، البتہ دم کی ادائیگی فی الفور لازم نہیں ، بلکہ بعد میں بھی دیا جاسکتا ہے ، لہٰذا اگر زید  کے پاس فی الوقت دم دینے کی استطاعت نہیں ، تو انتظار کرے ، جب استطاعت ہو تو خود یا کسی  معتمد فرد کے ذریعے حرم میں ایک بکری ذبح کروا دے ،قرض لے کر دم کی ادائیگی کر سکتا ہو ، تو قرض لے کر کرے۔ اگر زندگی میں دم ادا نہ کیا تھا کہ وفات کا وقت قریب آ گیا ، تو وصیت کرنا واجب ہے،بغیر وصیت کیے فوت ہو گیا ، تو گنہگار ہوگا ۔

    کپڑے بغیر عذرایک دن تک  پہنے ہوں تودم واجب ہے، اس کے بدلے کوئی دوسری چیز دینا جائز نہیں۔جیسا کہ مناسک ملا علی قاری میں ہے:” اذا فعل شیئا من ذلک علی وجہ الکمال ای مما یوجب جنایۃ کاملۃ بان لبس یوما او طیب عضوا کاملا ونحو ذلک فان کان ای فعلہ بغیر عذر فعلیہ الدم عینا ای حتما معینا وجزما مبینا لایجوز عنہ غیرہ بدلا اصلا “ ترجمہ:جب محرم نے مذکورہ کسی چیز کو علی وجہ الکمال کیا یعنی اتنی مقدار میں کہ جس سے جنایت کامل ہو جائے مثلاً ایک دن لباس پہنا یا ایک پورے عضو کو خوشبو لگالی وغیرہ تو اگر محرم نے کسی عذر کے بغیر ارتکابِ جرم کیا ہو تو اس پر معین و لازمی طور پر دم دینا واجب ہے ، اس کے علاوہ کوئی چیز اس کا بدل اصلاً نہیں ہو سکتی ۔

(مناسک علی القاری ، باب فی جزاء الجنایات ، فصل فی جزاء اللبس ، ص551، مکۃ المکرمۃ)

    دم دینامتعین طور پر واجب ہو ، تو اس کی جگہ روزہ رکھنا یا قیمت دینا وغیرہ کافی نہیں۔ جیسا کہ علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” حیث وجب الدم عینا لایجوز عنہ ای بدلہ غیرہ من الصدقۃ والصوم والقیمۃ ای لا قیمۃ الھدی ولا قیمۃ الصدقۃ وانما یسقط بالاراقۃ فی الحرم “ ترجمہ:جہاں معین طور پر دم واجب ہے ، اس کے بدلے کوئی دوسری شے یعنی صدقہ فطر ادا کرنا یا روزہ رکھنا یا صدقہ فطر یا ہدی کی قیمت دینا جائز نہیں ، بلکہ  حرم میں دم کا جانور قربان کرنے سے ہی دم ساقط ہو گا ۔

(مناسک علی القاری ، باب فی جزاء الجنایات ، فصل فی انواع الکفارات ، ص569، مکۃ المکرمۃ)

        دم دینے پرقادر نہ ہونا ،روزے رکھنےکا اختیارلینےکےلیے عذر نہیں، دم دینا متعذر ہو ، تو دم ذمہ پر باقی رہے گا۔جیسا کہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” وعدم القدرۃ علی الکفارۃ فلیست باعذار فی حق التخییر ،ولو ارتکب المحظور بغیرعذرفواجبہ الدم عینا اوالصدقۃ فلایجوز عن الدم طعام اوصیام ولا عن الصدقۃ صیا م فان تعذر علیہ ذلک بقی فی ذمتہ  ترجمہ: کفارے کی ادائیگی پر قادر نہ ہونا متبادل صورت کو اختیار کرنے کا عذر نہیں ، لہٰذا اگربغیر عذر  کسی ممنوع کام کا ارتکاب کیاتواس پر بعینہ دم یا صدقہ ہی واجب ہوگا(یعنی ان دونوں میں سے جو لازم آئے گا وہی دینا پڑے گا ،اختیار نہیں ہوگا )لہٰذا دم کے بدلے کھانا کھلانا یا روزےرکھنا جائز نہیں ہوگااور نہ ہی صدقے کے بدلے روزے رکھنا جائز ہوگا، اگر دم یا صدقہ دینا متعذر ہو تو  بھی یہ چیزیں ذمہ پر باقی رہیں گی۔

(ردالمحتار ، کتاب الحج ،باب الجنایات ،ج3 ،ص671،کوئٹہ )

    دم اور کفارے علی التراخی واجب ہوتے ہیں ۔ نیز زندگی میں ادا نہ کیا ، تو مرتے وقت وصیت کرنا واجب ہے ۔  جیسا کہ لباب المناسک میں ہے:” اعلم ان الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی فلایاثم بالتاخیر عن او ل وقت الامکان ویکون مودیالا قاضیا فی ای وقت ادیٰ وانما یتضیق علیہ الوجوب فی آخر عمرہ فی وقت یغلب علی ظنہ ان لو لم یؤدہ لفات فان لم یؤد فیہ فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء والافضل تعجیل  اداء الکفارات “ ترجمہ:جان لو کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں لہذاادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود تاخیر کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا ، جب بھی ادا کرے گا ، ادا ہی ہو گا ،قضا نہیں ہو گا البتہ عمر کے آخری حصے میں جب اسے موت کا ظن غالب ہو جائے کہ اب ادا نہ کیا تو کفارہ ذمہ پر باقی رہ جائے گا تو اسی وقت کفارہ ادا کرنے کا وجوب متوجہ ہو گا اور بغیر ادا کیے فوت ہو گیا تو گنہگار ہوا اور کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے ۔ افضل یہ ہے کہ کفارے جلدی ادا کر دے۔

(لباب المناسک،باب فی جزاء الجنایات، ص542، مکۃالمکرمۃ )

    بغیر عذر جرم کا ارتکاب کیا تو اب صرف مقررہ کفارہ  دینے سے برئ الذمہ ہو گا ۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے : ” اگر بے عذر ایک دن کامل یا ایک رات کامل یا اس سے زائد سر چھپا رہا تو خاص حرم میں ایک قربانی ہی کرنی ہو گی جب چاہے کرے ، دوسرا طریقہ کفارہ کا نہیں۔ “

(فتاوی رضویہ، ج10، ص713، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم