Government Hajj Scheme Me Name Na Aane Ki Wajah Se Hajj Late Karna Kaisa ?

گورنمنٹ حج اسکیم میں نام نہ آنے کی وجہ سے حج میں تاخیر کرنا کیسا ؟

مجیب:ابوحذیفہ محمدشفیق عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-020

تاریخ اجراء:03 شعبان المعظم1435ھ/02جون2014ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فر ما تے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ ایک شخص نے حج کے سلسلے میں گورنمنٹ فارم حاصل کیا اور مقررہ وقت پررقم بھی جمع  کروا دی ، مگراس کا نام نہیں نکلا،ابھی چونکہ پرائیویٹ کاروان کے ذریعے درخواستیں جمع ہورہی ہیں اور جانا ، ممکن بھی ہے ، تو کیا اس شخص پر لازم ہے کہ پرائیویٹ ذریعہ اختیار کرتے ہو ئے حج پر جائے اور اگر نہ جائے اورآئندہ سال کوشش کرکے گورنمنٹ کے تحت سفر کرلے ، توکیاگنہگار ہوگا ؟ کیونکہ گورنمنٹ اور پرائیویٹ کے ریٹ میں لاکھوں کا  فرق آرہا ہے اور یہ خرچ کرنے کی بھی استطاعت موجود ہے ، لیکن اگر کم پیسوں میں ہوجائے ، تو فبہا اور اگر تاخیر کے سبب گناہ کا معاملہ آئے گا ، تو پرائیویٹ ہی انتظام کر لیں گے ۔اس بارے میں آپ شرعی رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ میں اس شخص کے پاس جب اتنی استطاعت موجود ہے کہ اپنے گھر ،اہل وعیال یعنی جن کا نفقہ اس کے ذمے لازم ہے ، وہ نکالنے کے بعد اتنی رقم موجود ہے کہ پرائیویٹ ذریعہ اختیار کرتے ہوئے حج کے اخراجات کو کافی ہے ، تو اس پر فرض ہے کہ اسی سال حج پر جائے اورآئندہ سال  تک تاخیر نہ کرے کہ حج فرض ہونے کے بعد بلاوجہ شرعی تاخیر کرنا گناہ ہےاور حدیث پاک میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعیدموجود ہے ۔

   چنانچہ امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ تعالی ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں:’’ من ملک زادا و  راحلۃتبلغہ الی بیت اللہ  و لم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا او نصرانیا و ذلک ان اللہ یقول فی کتابہ ﴿ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً یعنی جو زاد راہ اور سواری کا مالک ہوا ، جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے اور اس نے حج نہ کیا، تواس کی پرواہ نہیں،چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرناہے ، جو اس تک چل سکے۔(جا مع التر مذی ، جلد1 ، صفحہ100 ، مطبوعہ ملتان)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حج فرض ہونے کی شرائط کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ (ساتویں شرط)سفرخرچ کا مالک ہواور سواری پر قادر ہو ،خواہ سواری اس کی مِلک ہو یا اس کے پاس اتنامال ہو کہ کرایہ پر لے سکے ۔‘‘مزید لکھتے ہیں:’’سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی مکان و لباس و خادم اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دَین سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گھر اہل وعیال کے نفقہ میں قدرِ متوسط کا اعتبار ہے ۔ نہ کمی ہو نہ اِسراف ۔ عیال سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن کا نفقہ اُس پر واجب ہے ، یہ ضروری نہیں کہ آنے کے بعدبھی وہاں اور یہاں کے خرچ کے بعد کچھ باقی بچے ۔ ‘‘ (بھار شریعت ، جلد1، حصہ6 ، صفحہ1040 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   اور حج فرض ہونے کے بعد تاخیر کرنے والے کے لیے حکم شریعت بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’ حج پر جانے کے لیے قادر ہو ، حج فوراً فرض ہوگیا یعنی اسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سالوں تک نہ کیا ، تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود ، مگر جب کرے گا ادا ہی ہے ، قضا نہیں ۔ ‘‘  ( بھار شریعت ، جلد1، حصہ6، صفحہ1036، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم