Hajj e Badal Ke Liye Kis Ko Bheja Jaye?‎

حجِ بدل کے لیے کس کو بھیجا جائے ؟

مجیب: ابوحذیفہ محمدشفیق عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-682

تاریخ اجراء: 01 رجب المرجب 1437  ھ/09اپریل 2016 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حج بدل کرنے والا اپنے فریضہ حج کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجاتا ہے ؟ مثلا ایک شخص پر حج فرض ہے کوئی دوسرا شخص حج بدل کروانا چاہتا ہے ، تو اب اس پر دوبارہ حج کرنا فرض رہے گا یا نہیں ؟اور جس پر حج فرض نہ ہو ، اس کو بھیجنا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

  جس شخص پر حج فرض ہو ، اسے کسی اور کی طرف سے حج بدل کرنا ،یونہی جانتے ہوئے دوسرے کا اسے حج بدل کے لئے بھیجنا مکروہ تحریمی و ناجائز ہے ، کیونکہ اس پر توفرض ہے کہ اپنا حج ادا کرے اورایسا شخص اگر حج بدل کے طور پر چلا بھی جائے ، تو حج بدل کرنے کی وجہ سے اپنا حج ساقط نہیں ہوگا ، وہ بدستور اس پر فرض ہی رہے گا اورجو شخص حج بدل کروارہا ہو ، اسے چاہیے کہ اس شخص سے معلوم کرلے کہ اس پر حج کا فریضہ پہلے سے ہی لازم ہے یا نہیں ؟اور لازم ہونے کی صورت میں اسے بالکل بھی نہ بھیجے اور جس پر حج فرض نہ ہو ا ہو ، اس کو بھیجنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجا جائے ، جو پہلے فرض حج ادا کر چکا ہو ۔

  حج بدل کے لئے کس کو بھیجاجائے اس کے بارے میں نقایہ اور اس کی شرح فتح العنایہ میں ہے:’’ ومن عجز فاحج غیرہ سواء کان ذلک الغیر ذکر ا او انثی حرا او عبدا ماذونا ،حج عن نفسہ او لم یحج صح لکن یکرہ احجاج الانثی حرۃ او امۃ عن الذکر وکذا العبد کراھۃ تنزیھۃ واما من لم یحج عن نفسہ فمکروہ کراھۃ تحریم‘‘یعنی جو شخص حج کرنے سے عاجز ہو اور اس نے اپنی جگہ کسی اور کو حج کروایا ، چاہے وہ حج کرنے والا آزادمرد ہو یا عورت یا پھر عبد ماذون ہو ،اس نے اپنی طرف سے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو،ان تمام صورتوں میں حج کروانے والے کا حج درست ہو جائے گا ، لیکن آزاد مرد کی بنسبت آزاد یا غلام عورت یا غلام کو حج کیلئے بھیجنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر کسی نے حج فرض ہونے کے باوجود خود اپنی طرف سے حج نہیں کیا ، تو ایسے شخص کو حج کیلئے بھیجنا مکروہ تحریمی ہے ۔ (فتح باب العنایہ شرح نقایہ ، جلد 1 ، صفحہ 731 ، مطبوعہ کراچی )

  صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :’’ جس پر حج فرض ہے اورنہ اد ا کیا نہ وصیت کی ، تو بالاجماع گنہگار ہے ۔اگر وارث اُس کی طرف سے حج بدل کرانا چاہے ، تو کرا سکتا ہے ۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ امید ہے کہ ادا ہو جائے اور اگر وصیت کرگیا ، تو تہائی مال سے کرایا جائے اگر چہ اُس نے وصیت میں تہائی کی قید نہ لگائی ہو ۔ مثلاً یہ کہہ کر مراکہ میری طرف سے حج بدل کرایا جائے۔‘‘            (بھارشریعت،جلد1،حصہ 6،صفحہ1206، مکتبۃالمدینہ ، کراچی)

  ایک اورمقام پر لکھتے ہیں :’’ بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لئے ایسا شخص بھیجا جائے ، جو خود حجۃ الاسلام (حجِ فرض ) ادا کرچکا ہو اور اگر ایسے کو بھیجا ، جس نے خود نہیں کیا ہے ، جب بھی حجِ بدل ہو جائے گا اور اگر خود اس پر حج فرض ہو اور ادانہ کیا ہو ، تو اسے بھیجنا مکروہ تحریمی ہے۔ (بھارشریعت،جلد1،حصہ 6،صفحہ1203، مکتبۃالمدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم