Hajj Farz Hone Ke Baad Mal Na Raha To Farz Hajj Ka Kya Hukum Hai ? Hajj

حج فرض ہونے کے بعد مال نہ رہا  تو فرض حج کا کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12375

تاریخ اجراء:        28 محرم الحرام 1444 ھ/27 اگست 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے تقریبا آٹھ ، دس سال پہلے ایک عورت کی ملکیت میں اتنی مالیت کا سونا(Gold)موجود تھا کہ وہ محرم کے ساتھ حج پر جا سکتی تھی ، لیکن کوئی بھی محرم اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہ ہوا،پھر وہ سونا سال بہ سال زکاۃ دینے ، قربانی کرنےاور دیگر اخراجات  کی وجہ سےکم ہو گیا اور حج بھی مہنگا ہو گیا ہے ،اب اس عورت کے پاس  حج کرنے کے اسباب نہیں ہیں۔  اس صورت میں اس عورت کے لئے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سفرِ حج کے لئےمحرم یا شوہر کاہونا وجوبِ حج کی شرائط سے نہیں، بلکہ  شرائط پائے جانے پرحج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی واجب ہونے کی شرائط میں سے ہے،لہٰذاپوچھی گئی صورت میں فرضیتِ حج کی دیگر شرائط پائے جانے کے ساتھ جب اس عورت کی ملکیت میں اتنا مال موجود تھا کہ وہ خود حج کر سکتی تھی ،لیکن محرم کے ساتھ  نہ جانے کی وجہ سے حج ادا نہیں کرسکی تو اس پر حج  فرض ہو چکا تھا، لیکن ادائیگی واجب ہونے کی صورت نہیں پائی گئی،اس عورت پر اب بھی حج فرض ہے، مال کم ہونے یا ہلاک ہونے کی وجہ سے فرض ہوجانے والاحج ساقط نہیں ہوگا، البتہ جب تک ساتھ جانے کے لئے کوئی محرم نہیں ملتا ، انتظار کرے ۔  اگر شوہر یا محرم میں سے کوئی میسر ہو  تو اس فرض حج کی ادائیگی کرے۔ نیز اگرشوہر یا محرم کےمیسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں حج کی ادائیگی ہی ممکن نہ ہوسکی اور عمر اتنی زیادہ ہوگئی کہ اب خود ہی حج کرنے سے عاجز ہے اور وقتِ وفات بھی قریب ہے، تو حجِ بدل کروانا یا حجِ بدل کی وصیت کرنا اس عورت پر واجب ہوگا۔ واضح رہے کہ حجِ بدل کروانے میں اس کی تمام شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔

ہدایہ میں ہے:”یعتبر المراۃ ان یکون لھا محرم تحج بہ او زوج ولایجوز لھا ان تحج بغیرھما اذا کان بینھا وبین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ ایام“یعنی عورت کے لئے محرم یا شوہر کا ہونا  معتبر ہے جس کے ساتھ حج کر سکے اور عورت کے لئے جائز نہیں کہ ان دونوں کے بغیر حج کو جائے، بشرطیکہ جب اس کے اور مکۃ المکرمہ کے درمیان تین دن(یعنی 92 کلو میٹر یا اس سے زائد)کی مسافت ہو۔(ھدایہ مع فتح القدیر، جلد2،صفحہ 326۔326،مطبوعہ:بیروت)

   عورت کے ساتھ محرم یا شوہر کا ہوناشرائطِ وجوبِ ادا میں سے ہےاور شرائطِ وجوبِ ادا کے حکم سے متعلق مناسکِ ملا علی قاری اورفتاوی شامیمیں ہے:واللفظ للشامیۃ:والنوع الثانی:شروط الاداء وهی التی ان وجدت بتمامها مع شروط الوجوب وجب اداؤه بنفسه وان فقد بعضها مع تحقق شروط الوجوب فلا يجب الاداء بل عليه الاحجاج او الايصاء عند الموت وهی خمسة: سلامة البدن وامن الطريق وعدم الحبس  والمحرم او الزوج للمراة وعدم العدّة لها “یعنی حج کی شرائط میں سے دوسری قسم شرائطِ وجوبِ ادا کی ہے اور یہ وہ شرائط ہیں کہ جب یہ ساری شرائط،وجوبِ حج کی شرائط کےساتھ پائی جائیں تو آدمی پر خود حج ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے اور اگر شرائطِ وجوب ادا میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے ، وجوب کی ساری شرائط پائی جاتی ہوں تو اب آدمی پرخود حج کے لئے جاناواجب نہیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ اپنی طرف سے کسی اور کو حج پر بھیجے یا مرنے کے وقت حجِ بدل کی وصیت کرجائے۔وجوبِ ادا کی کل 5شرائط ہیں: تندرست  ہونا،راستے میں امن ہونا،قید میں نہ ہونا،(اگر عورت پر حج فرض ہے تو)اس کے لئےمحرم یا شوہر کاموجود ہونانیز عورت کا عدّت میں نہ ہونا۔(ردالمحتار،جلد3،صفحہ521-522،مطبوعہ: کوئٹہ)(المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،صفحہ70،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)

   عورت کے لئے محرم یا شوہر کا ہوناشرائطِ وجوبِ ادا میں سے ہے جیساکہ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ حج کی شرائطِ وجوبِ ادا کے تحت فرماتے ہیں:”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے،خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑھیا۔“(بھار شریعت،جلد1،حصہ6،صفحہ1044، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مال کم ہوجانے یا ہلاک ہونے کی وجہ سے فرض ہوجانے والا حج ساقط نہیں ہوتا۔اس کے متعلق مناسک ملا علی قاری میں ہے:”(لا یسقط)ای وجوب الحج (بھلاک المال) ای بضیاعہ وکذا بالاستھلاک اذا تعلق بہ الوجوب (وفوت القدرۃ)ای بعد تحققھا (اتفاقا)ای بین علمائنا ، فیجب علیہ حینئذ ان یحج بنفسہ او یحج غیرہ او یوصی بہ“یعنی وجوبِ حج ساقط نہیں ہوگا مال کےہلاک ہونے یعنی ضائع ہونے کی وجہ سے ۔خود ہلاک کرنے کی وجہ سے حج ساقط نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کے ساتھ وجوب متعلق ہوچکا ہو اور قدرت  متحقق ہونے کے بعد قدرت فوت ہوگئی  تو بھی وجوبِ حج ساقط نہیں ہوگا ،اس میں ہمارے علما کا اتفاق ہے ، پس اب اس پر واجب ہے کہ خود حج کرے یا کسی دوسرے کو حج کروائے یا دوسرے کو حج کرانے کی وصیت کر جائے۔ (المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط ، صفحہ 84،مطبوعہ:مکۃ المکرمہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لا يسقط الحج وصدقة الفطر بهلاك المال لوجوبهما بقدرة ممكنة وهی القدرة على الزاد والراحلة وملك النصاب“یعنی مال ہلاک ہوجانے کی وجہ سے حج اور صدقۂ فطر ساقط نہیں ہوتے کیونکہ ان دونوں کا وجوب قدرتِ ممکنہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ زادِ راہ اور سواری پر قادر ہونا اور مالکِ نصاب ہونا ہے۔(ردالمحتار، جلد9،صفحہ522۔523،مطبوعہ:کوئٹہ)

   محرم کے نہ ہونے کی وجہ سے حج نہیں کرسکتی تو انتظار کرے۔ اگراتنی بوڑھی ہوگئی کہ خود حج کرنے سے ہی عاجز آگئی ،تو حجِ بدل کروائے۔اس کے متعلق ردالمحتار میں ہے:”ومن العجز  الذی یرجی زوالہ عدم وجود المراۃ محرما فتقعد الی ان تبلغ وقتا تعجز عن الحج فیہ ای لکبر او عمی او زمانۃ فحینئذ تبعث من یحج عنھا“یعنی ایسا عجز جس کے  ختم ہونے کی امید ہے اس میں عورت کا محرم کو نہ پانا ہے ، تو یہ عورت انتظار کرے گی یہاں تک کہ ایسے کیفیت کو  پہنچ جائے جس میں خود حج کرنے سے عاجز ہو یعنی بڑھاپے  ، اندھے پن یا لنگڑے پن کی وجہ سے ، تو اب ایسے شخص کو بھیجے جو اس کی طرف سے حج کرسکے ۔(ردالمحتار،جلد4،صفحہ 18،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اگر حجِ بدل نہ کرواسکی تو وفات سے پہلے حجِ بدل کی وصیت کرنا واجب ہے۔اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:”اگر اس پر حقوق اللہ کی ادائیگی باقی ہے جیسے اس پر کچھ نمازوں کا ادا کرنا باقی ہے یا اس پر حج فرض تھا ادا نہ کیا یا روزہ رکھنا تھا نہ رکھا ، تو ایسی صورت میں ان کے لئے وصیت کرنا واجب ہے“ (بہارِ شریعت، جلد3،صفحہ 936،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم