Hajj Ke Akhrajat Ki Raqam Qarz Dene Ka Hukum?

حج کے اخراجات کی رقم کوئی قرض مانگے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1739

تاریخ اجراء: 21ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/10جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حج فرض ہونے کا زمانہ آگیا، حاجی حج کو جارہے ہیں اورحج کے اخراجات کے مطابق حاجت سے زائد پیسے پاس موجود ہیں تو حج فرض ہوگیا لیکن اس وقت اگر بھائی قرض مانگے تو کیا اسے قرض دیں یا حج پر جائیں۔ اور صورت حال یہ ہے کہ اگر قرض نہ دیا تو بھائی اور والد دونوں ناراض ہوجائیں گے اور ساری باتیں سننی پڑیں گی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حج فرض ہوجانے کی  صورت میں  حج اخراجات والی رقم  حج کے علاوہ کسی اورکام مثلابھائی کو قرض دینے وغیرہ میں صرف کرنا، جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ رقم کےذریعے حج پر جائے اور چاہئے کہ اپنے بھائی اور والد کو سمجھا کر حکم شرعی تسلیم کرنے پر رضامند کرلے، اگر وہ نہ مانیں تو ان کو نظر انداز کرکے حج پہ چلا جائے کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کالحاظ نہیں کیاجاتا۔

   بہار شریعت میں ہے: ”روپیہ ہے جس سے حج کرسکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اُٹھانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اُس شہر والے حج کو جارہے ہوں اور اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اُٹھا دیا تو حرج نہیں۔“(بہار شریعت، جلد1، صفحہ1042، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم