Hajj Ke Doran Hajjam Ki Ujrat Ada Karne Se Reh Gai Tu Kya Karein ?

حج کے دوران حجام  کی اجرت اداکرنے سے رہ گئی تو کیا کرے؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1795

تاریخ اجراء: 17ذوالحجۃالحرام1444 ھ/6جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دو شخص حج کیلئے گئے تھے اور وہاں انہوں نے حلق کروایا اور حجام کو پیسے دئیے لیکن چونکہ اس کے پاس کُھلے  نہیں تھے، لہذا اس نے ان لوگوں سے فی الحال حلق کی اجرت نہیں لی   اور  دونوں کے موبائل نمبر  لے لئے مگر اپنا  موبائل نمبر نہیں دیا کہ وہ لوگ اُس سے رابطہ کرکے اسے وہ رقم پہنچادیتے،اب ایسی صورت میں وہ لوگ اس رقم کا کیا کریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عام طور پر حجاج کرام کسی دکان پر جاکر حلق  کرواتے ہیں اور جس دکان سے حلق کروایا ہوتا ہے،  اس کا کچھ نا کچھ پتا بھی معلوم ہوتا ہے  لہذا اگر معاملہ یہی ہو تو ایسی صورت میں اُس دکان دار  تک پہنچنا اتنا زیادہ  مشکل نہیں ،ہر ممکن کوشش کی جائے کہ اُس دکان دار تک پہنچا جاسکے اگر وہ مل جائے تو اُسے اس کی اجرت ادا کردی جائے،اور اگرکسی طرح بھی  اُس شخص کی دکان معلوم نہ ہوسکے   یا کسی راہ  چلتے حجام سے حلق کروایا ہو   اور اب اس کے بارے میں کچھ پتا نہ  ہو کہ وہ کہاں ہے ؟ تو ایسی صورت میں  انتظار کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جب اس نے ان لوگوں کا موبائل نمبر لیا ہے تو وہ اپنی رقم  لینے کیلئے ان  لوگوں سے رابطہ بھی کرے،پھر اگر   کسی طرح بھی اس کے رابطہ کرنے یا ملنے کی امید باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں اُن دونوں  میں سے ہر ایک  اپنے حصہ کی رقم اُس کی طرف سےصدقہ کردے۔ہاں صدقہ کرنے کے بعد اگر وہ مل  گیایااس سےرابطہ ہوگیا اور وہ  صدقہ کرنے پر راضی نہ ہو ا تو اب اُنہیں اس کی  وہ رقم دینی ہوگی۔ 

   تنویر الابصار مع درمختار میں ہے : ” (عليه ديون... جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله(و) متى فعل ذلك(سقط عنه المطالبة)من أصحاب الديون(في العقبي)‘‘ ملتقطاً۔ ترجمہ: کسی پر دوسروں کے قرضے ہوں، لیکن ان کے مالکوں کا پتا نہیں اوراسے  مالکوں کے ملنے کی امید بھی نہیں رہی، تو اب اس پر اتنی مقدار میں اپنے مال میں سے صدقہ کرنا لازم ہے۔ اور جب اس نے یہ کام کرلیا،تو اب آخرت میں   قرضوں کے مالکین کی طرف سے اس شخص پر کوئی مطالبہ نہ رہے گا۔(تنویر الابصار مع در مختار ، کتاب اللقطۃ، جلد6،صفحہ434، دار المعرفۃ، بیروت)

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:’’أما اذا علمھم  فلا یبرأ دنیا و أخری إلا بالدفع الیھم ...وأما اذا کان یرجو المعرفۃ فلا یتصدق ‘‘ترجمہ: بہر حال اگر اسے مالکین کا علم ہے،تو اب یہ شخص دنیا اور آخرت میں بری نہیں ہوسکتا،مگر یہ کہ  مال ان کے مالکوں تک پہنچا دے۔  اور اگر مالک ملنے کی امید ہے تو اب یہ شخص مال کو صدقہ نہیں کر سکتا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر مختار ، کتاب اللقطۃ، جلد6،صفحہ499، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ اسی طرح کا سوال ہوا،  جس کا خلاصہ یہ ہےکہ ایک شخص نے گاڑی میں سفر کیا اور اس وقت اس شخص کے  پاس پیسے نہیں تھے لہذا اس نے گاڑی والے سے کہا کہ پیسے صبح لے لینا ،اس کے بعد صبح وہ شخص  گاڑی والے کوپیسے دینے آیا لیکن وہ اسے نہ ملا،اب وہ شخص کیا کرے؟

   آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے جواب ارشاد فرمایا:”اسٹیشن پرجانے والی گاڑیاں اگرکوئی مانع قوی نہ ہوتو ہرگاڑی کہ آمدورفت پرضرورآتی جاتی ہیں۔ اگرزیداسٹیشن پرتلاش کرتا، ملناآسان تھا، اب بھی خودیابذریعہ کسی متدیّن معتمد کے تلاش کرائے ،اگرملے دے دئیے جائیں، ورنہ جب یاس ونا اُمیدی ہوجائے اُس کی طرف سے تصدّق کردے، اگرپھركبھی وہ ملے اور اس تصدّق پرراضی نہ ہو،تو اُسے اپنے پاس سے دے “۔(فتاوی رضویہ،جلد25، صفحہ55، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم